ميرا ارادہ تھا كہ ليلۃ القدر مسجد ميں عبادت كر كے بسر كروں گا، ليكن ايسا نہ كر سكا تو ميں نے اپنے گھر ميں ہى بيوى بچوں كو نماز تراويح پڑھا دى، كيا ميرى يہ نماز صحيح ہے يا نہيں ؟
اور دوسرا سوال يہ ہے كہ ہم نے بارہ ركعات ادا كيں جس كى امامت ميں نے خود كى اور بلند آواز سے قرآت نہيں كى كيا يہ صحيح ہے، برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں ؟
بيوى بچوں كو گھر ميں قيام الليل كى نماز سرى آواز ميں پڑھا دى
سوال: 81146
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز تراويح گھر ميں ادا كرنا جائز ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن نماز تراويح باجماعت مسجد ميں ادا كرنا افضل ہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا ماہ رمضان ميں تروايح مسجد ميں جا كر ادا كى جائيں يا كہ گھر ميں ہى ادا كر لوں، ميں امامت تو نہيں كرواتا ليكن مقتدى بن كر تروايح ادا كرتا ہوں، اور قرآن مجيد پڑھنا پسند ہے سننے سے ميرا پڑھنا افضل ہے، اگر ميں گھر ميں نماز ادا كروں تو كيا اس ميں كوئى گناہ ہے يعنى نماز تراويح گھرميں ادا كرنا گناہ تو نہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" نماز تراويح گھر ميں ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ يہ نفلى نماز ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے طريقہ پرعمل كرتے ہوئے مسجد ميں باجماعت تراويح ادا كرنا افضل ہے.
اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو كچھ راتيں رات كے آخرى حصہ تك نماز تروايح پڑھائيں تو كچھ صحابہ كرام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اگر آپ ہميں رات كا باقى حصہ ميں نماز پڑھاتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس شخص نے بھى امام كے جانے تك امام كے ساتھ قيام كيا تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھتا ہے "
اسے امام احمد ( 5 / 159 ) اور اصحاب سنن نےابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے اور يہ حديث حسن ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 201 – 202 ).
دوم:
نماز تراويح ميں اصل تو يہى ہے كہ اس ميں قرآت جھرى كى جاتى ہے،كيونكہ صحابہ كرام سے يہى ثابت عمر رضى اللہ تعالى عنہ كےدورميں ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ لوگوں كو ترايح پڑھاتے اور اس ميں لمبى قرآت كيا كرتے تھے.
ليكن جھرى نمازوں ميں جھرى قرآت كرنا اور سرى ميں سرى قرآت كرنا امام كے ليے مندوب ہے واجب نہيں، جيسا كہ جمہور اہل علم مالكى اور شافعى اور حنابلہ كے ہاں معروف ہے "
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جمہور فقھاء كرام كے ہاں جہرى نمازوں ميں جہرى اورسرى نمازوں ميں سرى قرآت كرنا سنت ہے، ليكن احناف كے ہاں يہ جہرى ميں جہرى قرآت كرنا اور سرى ميں سرى قرآت واجب ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 188 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جہرى نمازوں ميں جہرى قرآت كرنا واجب نہيں بلكہ افضل ہے، اس ليے اگر كوئى شخص جہرى نماز ميں سرى طور پرقرآت كرتا ہے تو اس كى نماز باطل نہيں ہوگى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" جو شخص سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز نہيں ہوتى "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےاسے جہرى يا سرى كے ساتھ مقيد نہيں فرمايا، اس ليے جب كوئى انسان واجب كردہ قرآس سرى يا جہرى طور پر كرے تو اس نے واجب ادا كر ليا ليكن افضل يہى ہے كہ جن نمازوں ميں جہرى قرآت كرنا مسنون ہے ان ميں جہرى قرآت كى جائے.
مثلا مغرب اور عشاء كى پہلى دو ركعتوں اور فجر اور نماز جمعہ اور نماز عيد اور نماز استسقاء اور نماز تراويح وغيرہ جو جہرى قرآت ميں معروف ہيں جہرى قرآت كرنا مسنون اور افضل ہے.
اور اگر كوئى شخص عمدا جہرى نماز كى امامت ميں جہرى قرآت نہيں كرتا تو اس كى نماز صحيح تو ہے ليكن ناقص ہوگى، ليكن اگر كوئى منفرد شخص يعنى اكيلا شخص جہرى نماز ادا كرے تو اسے جہرى يا سرى قرآت كرنے كا اختيار ہے.
اس سلسلہ ميں ديكھا جائيگا كہ اس كو چست كرنے ميں اور اس كے ليے خشوع و خضوع كس ميں ہے تو وہ اسى كو ادا كريگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( نماز ) ( 218 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ فجر كى دونوں ركعتوں اور نماز مغرب اور عشاء كى پہلى دو ركعتوں ميں جہرى قرآت كيا كرتے تھے، اس ليے جہرى قرآت كرنا سنت ٹھرى، اور امت كے حق ميں مشروع يہى ہے كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتداء كريں.
اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے، اس كے ليے جو اللہ اور يوم آخرت كى اميد ركھتا اور اللہ كو كثرت سے ياد كرتا ہے الاحزاب ( 21 ).
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
اور اگر كوئى شخص جہرى نماز ميں جہرى قرآت نہيں كرتا تو اس نے سنت ترك كى ليكن اس سے اس كى نماز باطل نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 392 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ: آپ كى نماز صحيح ہے اور آپ پر كچھ لازم نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب