ميرے اصل وطن ميں بعض ايسى كمپنياں ہيں جو رقم ركھ كر ماہانہ فائدہ ديتى ہيں، اور اصل مال ميں كوئى رد وبدل نہيں ہوتا، لہذا اس شكل ميں ہونے والى آمدن كا حكم كيا ہے؟ اور كيا كسى بيوہ كے ليے اس آمدن كو اپنے اور اپنے خاندان پر صرف كرن جائز ہے ؟
كفار كے بنكوں ميں ركھى گئى رقم پر سود لينے كا حكم
سوال: 8141
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى كے سامنے اسى سے ملتا جلتا ايك سوال پيش كيا گيا جو مندرجہ ذيل ہے:
امت ( الامۃ ) ميگزين نے مغربى ممالك اور دار الكفر ميں ہونے والے مالى معاملات كے بارہ ميں ايك فتوى شائع كيا ہے: جو بالنص ذيل ميں پيش خدمت ہے:
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى دار الحرب ميں حربى كفار سے سود لينے اور ہر ايسے معاہدے يا معاملہ كو جائز سمجھتے ہيں جس كا فائدہ مسلمان شخص كو پہنچتا ہو، ليكن يہ اس وقت تك ہے كہ جب يہ رضامندى كے ساتھ ہو، اور اس ميں دھوكہ اور خيانت نہ پائى جائے.
لہذا اگر يہ صحيح ہو تو اس سے فرانس ميں بعض مسلمانوں كا فائدہ حاصل ہو گا، كيونكہ ہمارے پاس جو فنڈ آتا ہے وہ صرف كرنے سے قبل كئى كئى ماہ بنك ميں رہتا ہے، اور اس پر حاصل ہونے والے فائدہ سے بنك كے علاوہ كوئى اور فائدہ حاصل نہيں كرتا، اگر يہ فتوى صحيح ہو تو دار الحرب ميں ہم اپنے مال پر فوائد سے استفادہ كر سكتے ہيں، اور كم از كم يہ مال ہم فقراء و مساكين كو تو پيش كريں گے، ان كے علاوہ كسى اور كو نہيں، اس مقصد كے پيچھے اللہ تعالى ہے.
تو شيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كى سربراہى ميں قائم مستقل فتوى كميٹى كا جواب تھا:
اول:
كفار اور ہمارے مابين مالى معاہدے اور منافع كا تبادلہ اس وقت تك صحيح ہے جب تك وہ شريعت اسلاميہ كے معاہدے كى شروط پر پورا اترتا ہو.
دوم:
سودى لين دين مطلقا حرام ہے، چاہے وہ مسلمانوں كے مابين ہو يا پھر كفار اور مسلمانوں كے مابين، اور چاہے كفار حربى ہوں يا پھر غير حربى .
ماخذ:
ماخوز از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 19 )