0 / 0
13,45216/01/2008

ہفتہ كے دن روزہ ركھنے كا حكم

سوال: 81621

رمضان المبارك كے علاوہ باقى مہينوں ميں ہفتہ كے دن كا روزہ ركھنے كا حكم كيا ہے، اور اگر يوم عرفہ كا روزہ ہفتہ كے دن موافق ہو تو كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

صرف اكيلا ہفتہ كے دن كا روزہ ركھنا مكروہ ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عبد اللہ بن بسر اپنى بہن سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ہفتہ كے دن كا روزہ نہ ركھو، مگر اس ميں جو اللہ نے تم پر فرض كيا ہے، اور اگر تم ميں سے كسى كو انگور كى چھال يا درخت كى لكڑى كے علاوہ اور كچھ نہ ملے تو اسے ہى چبا لے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 744 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2421 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1726 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 960 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور ابو عيسى ترمذى نے كہا ہے كہ يہ حديث حسن ہے.

اس ميں كراہيت كا معنى يہ ہے كہ آدمى ہفتہ كے دن كو روزے كے ليے خاص كر لے، كيونكہ يہودى اس دن كى تعظيم كرتے ہيں " انتہى.

لحاء عنبۃ انگور كے دانے كے چھلكے كو كہتے ہيں.

فليمضغہ: يہ روزہ كھولنے كى تاكيد ہے كہ وہ روزہ نہ ركھے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: صرف ہفتہ كے دن كا روزہ ركھنا مكروہ ہے…. اور صرف اس دن كا اكيلا روزہ ركھنا مكروہ ہے، ليكن اگر كوئى شخص اس كے ساتھ دوسرے دن كا بھى روزہ ركھتا ہے تو پھر ابو ہريرہ اور جويريۃ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث كى بنا پر مكروہ نہيں، اور اسى طرح اگر انسان كے روزے كے موافق ہفتہ كا دن آجائے تو بھى مكروہ نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 52 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى كى حديث سے مراد بخارى اور مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" تم ميں سے كوئى شخص بھى جمعہ كے دن كا روزہ نہ ركھے، مگر ايك دن اس سے قبل يا ايك دن اس كے بعد "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1985 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1144)

اور جويريہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث سے مردا بخارى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

جويريۃ بنت حارث رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك بار جمعہ كے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس آئے تو ميں نے روزہ ركھا ہوا تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

كيا تم نے كل روزہ ركھا تھا ؟

ميں نے جواب ديا: نہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے: كيا كل روزہ ركھنے كا ارادہ ہے ؟

تو ميں نے عرض كيا: نہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر روزہ كھول دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1986 ).

چنانچہ يہ دونوں حديثيں اس بات كى صريح دليل ہيں كہ رمضان المبارك كے علاوہ باقى ايام ميں جو شخص بھى جمعہ كے دن كا روزہ ركھے تو وہ ہفتہ كے دن كا روزہ بھى ركھ سكتا ہے.

اور صحيحين ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:

" اللہ تعالى كے ہاں محبوب ترين روزے داود عليہ السلام كے روزے ہيں، اور وہ ايك دن روزہ ركھتے،اور ايك دن روزہ نہ ركھتے تھے "

چنانچہ ايسا كرنے ميں بعض اوقات لازمى اس كا روزہ ہفتہ كے دن موافق ہو گا، اس ليے اس سے يہ اخذ كيا جاسكتا ہے كہ اگر عادتا ركھا جانے والا روزہ ہفتہ كے دن آجائے، مثلا يوم عرفہ، يا عاشوراء كا روزہ تو اس دن روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ اكيلا ہى كيوں نہ ہو.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے كہ:

جمعہ كے دن روزہ كى ممانعت سے كسى معين دن كا روزہ ركھنے والا شخص مستثنى ہوگا، مثلا يوم عرفہ كا روزہ اگر جمعہ كے دن آجائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر ہفتہ كے دن تو بھى كوئى حرج نہيں، اس كے متعلق ابن قدامہ كى كلام بيان ہو چكى ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" يہ معلوم ہونا چاہيے كہ ہفتہ كے دن روزہ ركھنے كى كئى ايك حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

يہ كہ وہ فرضى روزے ميں ہو، مثلا رمضان المبارك كے روزوں كى ادائيگى ميں، يا پھر بطور قضاء، مثلا كفارہ كے روزے، اور حج تمتع كى قربانى نہ ملنے كى صورت ميں ركھے جانے والے روزے وغيرہ تو اس ميں كوئى حرج نہيں جب تك وہ اسے يہ اعتقاد ركھتے ہوئے مخصوص نہ كرے كہ اسے كوئى امتياز حاصل ہے.

دوسرى حالت:

اگر اس سے قبل جمعہ كے دن كا روزہ ركھ لے تو بھى كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امہات المؤمنين ميں سے ايك نے جمعہ كے دن روزہ ركھنے كى بنا پر فرمايا:

" كيا تم نے كل روزہ ركھا تھا ؟

انہوں نے جواب نفى ميں ديا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تم كل روزہ ركھنا چاہتى ہو ؟

تو انہوں نے پھر نفى ميں جواب ديا.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر روزہ كھول دو "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان: كيا تم كل روزہ ركھنا چاہتى ہو ؟ "

ہفتہ كے دن كے ساتھ اگر جمعہ كا روزہ ركھا جائے تو اس كے جواز پر دلالت كرتا ہے.

تيسرى حالت:

مشروع ايام كے روزے مثلا ايام بيض، يوم عرفہ، يوم عاشوراء، اور رمضان كے روزے ركھنے والے كے ليے شوال كے چھ روزے، اور نو ذوالحجہ كا روزہ اگر ہفتہ كے دن كے موافق آ جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ روزہ اس ليے نہيں ركھ رہا كہ ہفتہ كا دن ہے، بلكہ اس نے تو روزہ اس ليے ركھا ہے كہ يہ مشروع ايام كا روزہ ہے.

چوتھى حالت:

عادت والے روزہ كے موافق آ جائے، مثلا جو شخص ايك دن روزہ ركھتا ہو اور ايك دن نہ ركھے تو ہفتہ كے دن روزہ موافق ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان المبارك سے ايك يا دو دن قبل روزہ ركھنے سے منع فرمايا ليكن اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہو تو اس كے ليے فرمايا:

" مگر يہ كہ جو شخص روزے ركھ رہا ہو وہ روزہ ركھے "

تو يہ بھى اسى طرح ہے.

پانچويں حالت:

ہفتہ كے دن كو نفلى روزے كے ليے مخصوص كر كے صرف ہفتہ كا روزہ ركھنا، يہ نہى ميں آتا ہے، اگر اس كى نہى ميں وارد شدہ حديث صحيح ہو. انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل الشيخ ابن عثيمين ( 20 / 57 ).

متعدد اہل علم ہفتے کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت والی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں، اور اس حدیث کے منکر اور شاد ہونے کا حکم لگاتے ہیں جن میں درج ذیل اہل علم شامل ہیں: 

امام مالک،  امام احمد،  زہری،  اوزاری،  ابن تیمیہ،  ابن قیم اور ابن حجر وغیرہ رحمہم اللہ جمیعا۔

اس حدیث کے ضعیف ہونے کا موقف  ابن باز، ابن عثیمین اور دائمی فتوی کمیٹی کے اراکین نے بھی اختیار کیا ہے۔

چنانچہ جب یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے اس لیے ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔

تفصیلات کے لیے دیکھیں: التلخيص الحبير: (2/216)، تهذيب السنن: ( 7/67)، الفروع از ابن مفلح: (3/92)، مجموع فتاوى ابن باز: (15/411)، فتاوى اللجنة الدائمة: (10/396)، اور مجموع فتاوى ابن عثيمين (20 / 35)

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android