ايك شخص كى شادى كو ابھى صرف چار ماہ ہى ہوئے تھے كہ بيوى كے درميان جھگڑا شروع ہو گيا اور بيوى بات ماننے سے انكار كرنے لگى، اور آپس ميں افہام و تفہيم نہ ہو سكى تو بيوى ميكے چلى گئى اور وہيں اس كے ہاں بيٹى بھى پيا ہوئى.
بيوى كو واپس لانے كى سارى كوششيں ناكام ہو گئيں تو خاوند نے عدالت ميں مقدمہ دائر كر ديا كہ بيوى كو گھر آنے پر مجبور كيا جائے، اور عدالتى فيصلہ بھى خاوند كے حق ميں ہو گيا، بيوى نے ايك اور چال يہ چلى كہ پوليس ميں رپورٹ درج كرائى كہ خاوند اسے زدكوب كرتا ہے اور زيادتى كرتا ہے اور اس كے بعد ـ اس رپورٹ كى بنا پر ـ عدالت سے رجوع كر ليا كہ وہ طلاق لينا چاہتى ہے كيونكہ خاوند اسے تكليف و اذيت ديتا ہے.
اس كے ساتھ ساتھ بيوى نے مالى معاوضہ اور سامان كا بھى مطالبہ كرنے لگى، اور مطلقہ عورت كے سارے حقوق بھى مانگے.
اب دو برس ہو چكے ہيں مقدمہ عدالت ميں چل رہا ہے اور كوئى فيصلہ نہيں ہوا، بيوى اور سسرال والوں كى جانب سے كئى قسم كے برے اور غلط كام اور شر واضح ہو جانے كے بعد خاوند نے فيصلہ اور عزم كيا ہے كہ وہ بيوى كو واپس نہيں لائيگا اور نہ ہى وہ اسے بطور بيوى اپنائيگا، ليكن وہ طلاق اسى صورت ميں دےگا جب عدالت سے طلاق دينے كا فيصلہ ہوگا.
كيونكہ ہو سكتا ہے كہ فيصلہ اس كے حق ميں ہو جائے اور بيوى كے سارے حقوق ساقط ہو جائيں، خاوند كا خيال ہے كہ اس سے اسے ہى نقصان ہوا ہے، نہ كہ بيوى كو جيسا كہ اس نے دعوى كر ركھا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا صرف طلاق كا عزم كرنے اور اس عرصہ ميں عدالتى فيصلے كا انتظار كرنے سے طلاق ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
اور كيا اسے اس كا كوئى گناہ ہو گا ـ يہ علم ميں رہے كہ وہ مقرر كردہ اخراجات بيوى كو پابندى سے ادا كر رہا ہے ـ اور كيا شريعت اس پر اس عرصہ كے دوران بيوى كے كچھ اور بھى حقوق واجب كرتى ہے، اور بچى جو كہ دو برس كى ہو چكى ہے اس كے بارہ ميں كوئى حقوق ہيں ؟
طلاق كے الفاظ كى ادائيگى كيے بغير صرف طلاق دينے كا ارادہ و عزم كرنے سے طلاق واقع نہيں ہوتى
سوال: 81726
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى پورے اور مكمل حقوق كى ادائيگى كى حرص ركھنے پر جزائے خير عطا فرمائے، اور ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ آپ كے اور آپ كى بيوى كے درميان جو معاملات ہيں وہ اس پر ختم ہوں جن ميں آپ دونوں كے ليے دنيا و آخرت كى بھلائى ہو.
رہا مسئلہ طلاق واقع ہونے كا تو اس سلسلہ ميں گزارش يہ ہے كہ صرف عزم و ارادہ كرنے سے طلاق واقع نہيں ہو جاتى بلكہ اس كے ليے الفاظ كى ادائيگى كى شرط ہے.
حافظ بدر الدين عينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ميں كسى كا بھى اختلاف نہيں كہ اگر كوئى شخص اپنے دل سے طلاق كى نيت كرتا ہے اور طلاق كے الفاظ كى ادائيگى نہيں كرتا تو اس پر كچھ بھى نہيں، ليكن خطابى رحمہ اللہ نے زہرى اور امام مالك رحمہم اللہ سے بيان كيا ہے كہ عزم كرنے سے بھى واقع ہو جائيگى، ليكن اس ميں انتہائى بعد پايا جاتا ہے، اور خطابى نے اسےظھار وغيرہ كے ساتھ اسے توڑا اور ختم كيا ہے.
كيونكہ ان كا اجماع ہے كہ اگر كوئى شخص ظھار كرنے كا عزم كرے تو اس پر ظھار كو اس وقت تك لازم نہيں كيا جائيگا جب تك وہ ظھار كے الفاظ نہيں بولتا، اور اگر وہ اپنے دل ميں بہتان كى بات كرے تو يہ بہتان لگانے والا نہيں كہلائيگا، اور اگر كوئى شخص دوران نماز دل ميں بات كرے تو وہ نماز نہيں لوٹائےگا، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے دوران نماز كلام كرنى حرام كى ہے، اس ليے اگر دل ميں بات كرنى كلام كے معنى ميں ہوتى تو اس كى نماز باطل ہو جاتى.
دل ميں طلاق كا عزم و ارادہ كرنے سے طلاق نہيں ہوتى اس كے قائلين ميں عطاء بن ابى رباح، اور ابن سيرين اور حسن اور سعيد بن جبير، شعبى، جابر بن زيد، قتادہ، ثورى، ابو حنيفہ و اصحابہ، شافعى، احمد اور اسحاق شامل ہيں ” انتہى
ديكھيں: عمدۃ القارى شرح فتح البارى ( 20 / 256 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” اگر كسى شخص نے طلاق كے الفاظ ادا كرنے كى نيت كى ليكن الفاظ زبان سے ادا نہ كيے تو بالاتفاق طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اصل ميں الفاظ بولے ہى نہيں گئے، ليكن امام زہرى نے اس كى مخالفت كرتے ہوئے كہا ہے كہ: اگر الفاظ نہ بھى بولے ليكن طلاق كى نيت كر لى تو طلاق واقع ہو جائيگى.
جمہور كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:
” يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے دل ميں كى گئى بات كو معاف كر ديا ہے، جب تك كہ اس پر عمل نہ كيا جائے يا زبان كلام نہ كى جائے ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 23 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے كہ:
” اگر آپ نے اپنے بھائى سے كلام كرتے ہوئے يہ كہا ہے كہ: ( ہم طلاق دينا چاہتے ہيں ) تو يہ كلام طلاق دينا نہيں ہے، بلكہ يہ تو طلاق دينے كا وعدہ ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 27 ).
اور شيخ محمد بن ابراہيم كا فتوى ہے:
” طلاق اس وقت تك واقع نہيں ہوتى جب تك طلاق كے الفاظ زبان سے ادا نہ كيے جائيں، يا پھر ايسے الفاظ ادا نہ ہوں جو اس كے قائم مقام ہوتے ہيں، چاہے الفاظ صريح ہوں يا پھر كنايہ كے الفاظ ہوں ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 11 / 70 ).
ہمارى اس ويب سائٹ پر اس مسئلہ پر مفصل نوٹ بيان ہو چكا اس كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (20660 ) اور (34164 ) كے جوابات ديكھيں.
آپ پر اپنى بيوى اور بيٹى كے بارہ ميں اس وقت جو واجب ہے وہ يہ كہ جب آپ انہيں ماہانہ اخراجات دے رہے ہيں تو ان شاء اللہ آپ پر كوئى گناہ نہيں اور آپ ظلم سے بھى محفوظ ہيں حتى كہ شرعى عدالت آپ دونوں كے مابين فيصلہ كر دے، اور يہ فيصلہ آپ كو اس وقت تسيلم كرتے ہوئے اپنانا اور اس پر عمل كرنا ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات