ان شاء اللہ آئندہ برس ميرے پاس اتنى رقم ہو جائيگى كہ ميں بيوى كے بغير صرف اكيلا حج كر سكوں، اور يہ رقم ميرے اور كسى كام كى معاون بھى بن سكتى ہے، خاص كر ميں ايك سركارى ادارہ ميں ملازمت كرتا ہوں، ہو سكتا ہے مجھے ملازمت سے كسى بھى وقت فارغ كر ديا جائے، فى الحال اس رقم كے علاوہ بھى ميرے پاس كچھ مبلغ ہے ليكن ميں نے يہ گھر بنانے كے ليے ركھا ہے كيونكہ ميرا عقد نكاح ہو چكا ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا مجھ پر حج فرض ہوتا ہے يا نہيں ؟
مالى استطاعت كے باوجود ملازمت چھن جانے كے ڈر سے حج نہ كرنا
سوال: 81916
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مكلف شخص پر حج فرض ہونے كى شروط ميں مالى اور بدنى استطاعت ہونا شرط ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے جو وہاں تك جانے كى استطاعت ركھتا ہو آل عمران ( 97 ).
فقھاء كرام نے مالى استطاعت كى تفسير اور شرح يہ كى ہے كہ آدمى كے پاس اتنا مال ہو جو اس كے زاد راہ اور سوارى كے ليے كافى ہو، يعنى جو اسے بيت اللہ تك جانے اور آنے كے ليے كافى ہو، اور يہ مال اس كے اصل واجب اخراجات اور شرعى اخراجات اور قرض كى ادائيگى كے علاوہ اور زائد ہو.
نفقہ ميں معتبر يہى ہے كہ اس كے پاس اتنا خرچ اور رقم ہو كہ وہ بيت اللہ كا حج كرنے كا خرج اور اس كے واپس آنے تك بيوى بچوں كے اخراجات كے ليے كافى ہو، اس ميں گھر كا كرايہ وغيرہ بھى شامل ہوگا.
اس ليے وہ تجارت كے راس المال كا مالك ہو جس كے نفع سے وہ اپنى بيوى بچوں كے اخراجات پورے كر رہا ہے تو ايسے شخص پر راس المال كے ساتھ حج فرض نہيں ہوگا، كيونكہ اگر وہ اپنا راس المال ہى حج ميں خرچ كر دے تو پھر اس كے نتيجہ ميں منافع اور تجارت ميں كمى ہو جائيگى كہ اس كے بيوى بچوں كے اخراجات كے ليے كافى نہيں ہوگا.
اس كى مزيد تفصيل كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11534 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ليے اگر آپ كے پاس وہ مال جو حج كے ليے كافى ہے آپ كے پاس آپ كى ضرورت سے زائد ہے تو آپ پر حج فرض ہے اور آپ پر حج كرنا لازم ہے، ليكن اگر ملازمت چھن جانے كا خوف حقيقى ہو، اور اس كے واضح قرائن پائے جائيں تو اس صورت ميں آپ پر حج فرض نہيں ہوگا.
ليكن يہ كہ ملازمت چھن جانے كا خوف صرف وہم اور گمان پر مبنى ہو جس كى كوئى بنياد و اساس نہيں تو پھر آپ پر حج كرنا فرض ہے.
اور اگر آپ كو اپنى عفت و عصمت كا ڈر ہو كہ اگر كاح اور شادى ميں تاخير ہوئى تو گناہ ميں پڑ جائيں تو وہ مبلغ جو آپ نے نكاح اور شادى كے ليے جمع كر ركھى ہے اس سے آپ پر حج كرنا لازم نہيں ہے، بلكہ آپ شادى اور نكاح كو حج پر مقدم كريں، اور اگر اس كے بعد رقم باقى بچے تو حج كر ليں، اور اگر رقم نہ ہو تو پھر عدم استطاعت كى بنا پر آپ پر حج فرض نہيں ہوگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگر وہ شادى اور نكاح كا محتاج ہو، اور اسے گناہ ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو پھر شادى كو ( حج پر ) مقدم كيا جائيگا؛ كيونكہ اس پر شادى كرنا فرض ہوگى، اور اس كے بغير كوئى چارہ نہيں تو يہ اس كے نفقہ كى مانند ہے.
اور اگر اسے گناہ ميں پڑنے كا خدش اور ڈر نہيں تو پھر حج مقدم ہوگا؛ كيونكہ نكاح اس صورت ميں نفلى ہے فرض نہيں، اس ليے نفل كو فرض پر مقدم نہيں كيا جا سكتا، كيوكہ حج فرض ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 3 / 88 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (27120 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات