ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ جان بوجھ كر عمدا روزہ توڑنے والى عورت مسلسل دوماہ كے روزے بغير كسى انقطاع كے كيسے ركھ سكتى ہے ؟
اور آپ اس كے متعلق كيا كہتے ہيں كہ اس عورت كو سات يوم ماہوارى آئےتو كيا وہ ان ايام ميں روزے نہ ركھے، اور اس كے فورا بعد دوبارہ شروع كر دے يا كہ كچھ اور كرنا ہو گا ؟
دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنے كے دوران ماہوارى آ جائے تو كيا اس سے تسلسل ختم ہو جائيگا ؟
سوال: 82394
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ماہ رمضان كے روزے عظيم فريضہ ہيں جو اللہ تعالى نے اپنے مومن بندوں پر درج ذيل فرمان جارى كر كے فرض كيے ہيں:
اے ايمان والوں تم پر روزے ركھنا فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اختيار كرو البقرۃ ( 183 ).
چنانچہ ہر عاقل بالغ مسلمان شخص پر روزے ركھنا فرض ہيں، صرف كسى شرعى عذر مثلا بيمارى يا سفر كى وجہ سے روزہ نہ ركھنے كى رخصت دى گئى ہے، اسى طرح حائضہ اور نفاس والى عورت كو بھى روزہ ترك كرينگى اور بعد ميں ان سب كو بطور قضاء روزے ركھنا ہونگے.
اور جس شخص نے بھى رمضان المبارك ميں بغير كسى عذر روزہ نہ ركھا تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرا، اسے لازما توبہ كرنا ہوگى، اور كيا وہ اس كے ذمہ اس روزہ كى قضاء لازم ہے يا نہيں ؟
اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو اس نے روزہ كى نيت كى اور پھر دن كے كسى حصہ ميں بغير كسى عذر كے روزہ توڑ ديا تو اسے روزہ كى قضاء كرنا ہوگى، اور اگر نيت نہ بھى كى تو راجح يہى ہے كہ اس پر قضاء نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بغير كسى شرعى عذر رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزہ توڑنا اكبر الكبائر ميں شامل ہوتا ہے، اس سے انسان فاسق ہو جاتا ہے، اسے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرنى اور اس روزہ كى قضاء ميں ايك روزہ ركھنا واجب ہے.
يعنى اگر وہ روزہ ركھےاور دن كے كسى حصہ ميں بغير كسى عذر كے روزہ كھول ليا تو وہ گنہگار ہے، اور اسے اس روزہ كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہوگا؛ كيونكہ جب اس نے روزہ شروع كر ليا تو اسے مكمل كرنا لازم ہے، اور جب اس نے وہ روزہ فرض سمجھ كر روزہ ركھا تو نذر كى طرح اس كى قضاء بھى لازم ہو گى.
ليكن اگر وہ بغير كسى عذر كے عمدا روزہ ركھتا ہى نہيں تو اس ميں راجح يہى ہے كہ اس كى قضاء لازم نہيں؛ كيونكہ وہ اس سے كچھ فائدہ حاصل نہيں كر سكتا، اس ليے كہ اس سے وہ روزہ قبول ہى نہيں كيا جائيگا.
كيونكہ قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
ہر مؤقت عبادت جس كى ادائيگى كے ليے وقت مقرر ہو جب وہ وقت سے بغير كسى عذر مؤخر كر دى جائے تو وہ قبول نہيں ہوگى.
اس ليے كہ نبى كريم صلى صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو اس كا وہ عمل مردود ہے "
اور اس ليے بھى كہ يہ اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ہے، اور اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرنا ظلم و زيادتى ہے، اور ظالم سے قبول نہيں ہوگى.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرتا ہے وہى لوگ ظالم ہيں .
اور اس ليے بھى كہ اگر يہى عبادت وقت سے قبل ادا كى جائے ـ يعنى وقت شروع ہونے سے قبل ـ تو بھى وہ عبادت قبول نہيں ہوتى، تو اسى طرح اگر بغير كسى عذر كے وقت سے بعد عبادت كى جائے تو قبول نہيں ہوگى ليكن اگر كوئى شرعى عذر ہو تو بعد ميں ادا كرنے سے قبول ہو جاتى ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 45 ).
دوم:
جس نے بھى بغير كسى عذر كے رمضان المبارك ميں روزہ توڑا اگر تو وہ جماع كر كے روزہ توڑتا ہے تو اس كے ذمہ كفارہ كے ساتھ ساتھ روزہ كى قضاء بھى ہوگى، كفارہ يہ ہے كہ ايك غلام آزاد كيا جائے، اگر نہ ملے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے جائيں، اور اگر اس كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے، اس ميں عورت يا مرد كا كوئى فرق نہيں، اگر عورت نے مرد كى اطاعت كرتے ہوئے روزہ توڑا تواس پر بھى كفارہ لازم ہے، ليكن اگر اسے مجبور كيا گيا ہو تو پھر عورت پر كفارہ لازم نہيں آتا.
اور اگر جماع كے علاوہ كسى اور چيز سے روزہ توڑا ہو مثلا كھا پى كر تو اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا اس پر كفارہ لازم آتا ہے يا نہيں، ليكن راجح يہى ہے كہ اس پر كفارہ لازم نہيں آتا.
اس ليے كہ روزہ توڑنے والے كفارہ واجب ہونے كى كوئى دليل نہيں ملتى اور اس كا جماع پر قياس كرنا صحيح نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور اس ليے كہ اس سے كفارہ واجب كرنے كى نہ تو كوئى نص ہے، اور نہ ہى اجماع پايا جاتا ہے، اور نہ ہى اسے جماع پر قياس كرنا صحيح ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 22 ).
سوم:
جب عورت پر مسلسل دوماہ كے روزے ركھنا واجب ہوں اور وہ روزے ركھنا شروع كردے پھر اسے ماہوارى آ جائے تو اس سے اس كے روزوں كا تسلسل نہيں ٹوٹتا بلكہ قائم رہےگا، چنانچہ ماہوارى كے ايام ميں روزہ نہ ركھے اور پھر ماہوارى ختم ہوتے ہى دوماہ كے روزے مكمل كرلے؛ كيونكہ حيض تو اللہ تعالى كى جانب آدم كى بيٹيوں كے مقدر ميں ہے، اس ميں ان كا اپنا كوئى دخل نہيں، اس پر اہل علم كا اجماع ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اہل علم كا اجماع ہے كہ مسلسل روزے ركھنى والى عورت كو مكمل كرنے سے قبل اگر ماہوارى آجائے تو جب وہ ماہوارى سے پاك ہو گى ان كى قضاء كرے، اور انہيں روزوں پر بنا كرتے ہوئے ( يعنى پہلے روزوں كو شامل كر كے مكمل كرے گى ) روزے مكمل كرےگى، كيونكہ دو ماہ ميں حيض سے بچنا ممكن نہيں، الا يہ كہ نااميدى كى بنا پر حيض ميں تاخير ہو، اس ميں روزوں كا خاتمہ ہے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 21 ).
اس بنا پر مثلا اگر كفارہ كے روزے محرم اور صفر كے مہينہ ركھ رہى ہو اور اس كى ہر ماہ ميں ماہوارى كے سات ايام ہيں تو وہ حيض كے ايام ميں روزے نہ ركھے، بلكہ ماہوارى ختم ہونے كے فورا بعد روزہ ركھنا شروع كرے اور حيض والے ايام كے عوض جمادى الاول كے چودہ دنوں كے روزے ركھ لے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب