ميرے پاس ايك بيوہ آئى اور بطور امانت ميرے پاس كچھ رقم ركھى تا كہ بوقت ضرورت اس كے كام آ سكے، يہ مال اس كے يتيم بچوں كا ہے، ليكن مجھے يہ خوف لاحق رہتا ہے كہ كہيں اسے زكاۃ ہى نہ كھا جائے جيسا كہ ہمارے رسول كريم صلى اللہ عليہ عليہ وسلم نے بتايا ہے.
يہ علم ميں رہے كہ اس نے يہ مال تجارت ميں لگانے كا نہيں كہا، اور اگر ميں ايسا كروں تو ميرے پاس كوئى ايسى جگہ نہيں جہاں ميں يہ مال ركھوں تو كيا ايسا كرنے ميں مجھ پر كوئى گناہ تو نہيں ؟
يتيم كے مال كو تجارت ميں لگانا
سوال: 83575
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس مال كى سرمايہ كارى نہ كرنے اور اسے تجارت ميں نہ لگانے ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں، كيونكہ آپ نے يہ مال حفاظت كے ليے بطور امانت اس سے ليا ہے، تو آپ پر اس كى حفاظت كرنا اور طلب كرنے پر اس كے مالكوں كے سپرد كرنا واجب ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا اللہ تعالى تمہيں يہ حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كے سپرد كر دو النساء ( 58 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم امانت اس كے سپرد كرو جس نے امانت تمہارے پاس ركھى ہے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1264 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3534 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ كو چاہيے كہ آپ اس بہن كو يہ نصيحت كريں كہ اس مال ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، اور اگر اسے تجارت ميں نہ لگايا گيا اور اس كى سرمايہ كارى نہ كى گئى تو اسے زكاۃ كھا جائيگى.
يہاں ہم متنبہ كرتے ہوئے ايك حديث كى طرف اشارہ كرتے ہيں:
” خبردار جو كوئى بھى كسى يتيم كا ولى بنے اور اس يتيم كا مال بھى ہو تو وہ اس مال كى تجارت كرے، اور اسے ويسے ہى نہ چھوڑ دے كہ اسے زكاۃ كھا جائے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 641 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ترمذى ميں ضعيف قرار ديا ہے.
ليكن اس حديث كا معنى اور مفہوم صحيح اور واضح ہے؛ كيونكہ يتيم كا مال بھى دوسرے اشخاص كے اموال كى طرح ہى ہے، جب يہ مال زكاۃ كے نصاب كو پہنچے اور اس پر سال گزر جائے تو اس ميں بھى زكاۃ واجب ہوتى ہے، اور اگر اسے تجارت ميں نہ لگايا جائے اور اس كى سرمايہ كارى نہ كى گئى ہو تو پھر ہر برس اس ميں سے زكاۃ نكالى جائيگى جو اس ميں نقص كا باعث بنے گا.
اور يہ چيز عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام سے ثابت ہے ان كا فرمان ہے:
” يتيموں كے اموال كى تجارت كرو تا كہ اسے زكاۃ نہ كھا جائے ”
اسے دارقطنى اور بيھقى نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند كو صحيح كہا ے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب