كيا كسى مسلمان شخص كے ليے اپنے قريبى رشتہ دار كى دعوت وليمہ قبول نہ كرنا جائز ہے ـ وہ ہر وقت ان رشتہ داروں كے ہاں آتا جاتا رہا ہے ـ ليكن اس دعوت ميں كچھ ايسے رشتہ دار بھى شريك ہونگے جو اسے اپنى حركات و سكنات اور كلام سے اذيت ديتے ہيں ؟
اور كيا بہن كے ليے اپنے بڑے بھائيوں كے ساتھ ملاقات ميں كمى كرنا جائز ہے كيونكہ وہ اس كا خيال نہيں كرتے اور اس سے نرمى و رحمدلى كے ساتھ پيش نہيں آتے، حالانكہ چھوٹى بہن انہيں كوئى تكليف نہيں ديتى، ليكن اس كے باوجود بھائى نہ تو اس سے تعلق ركھتے ہيں اور نہ ہى اس كا حال تك نہيں پوچھتے صرف اپنے بہنوئى يعنى اس كے خاوند سے ہى تعلق ركھتے ہيں يا پھر اپنى بيويوں كو اس سے رابطہ ركھنے كا كہتے ہيں تو كيا اسے بھائيوں سے پھر بھى صلہ رحمى كرنى چاہيے ؟
اپنى حركات و كلام سے دوسرے كو تكليف دينے والے شخص كى موجودگى ميں دعوت وليمہ ميں شريك ہونا
سوال: 83806
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر تو يہ دعوت وليمہ ہے يعنى نكاح وليمہ ہے تو جمہور علماء كرام كے ہاں يہ دعوت شخصى طور پر قبول كرنى واجب ہے، ليكن اگر يہ عام سى دعوت ہے جس كے نام كى تعيين نہيں كى گئى تو پھر اس كا وہاں جانا واجب نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ابن عبد البر كہتے ہيں كہ: وليمہ كى دعوت ديے جانے والے شخص كے ليے دعوت وليمہ قبول كرنا اور اس ميں جانا واجب ہے اگر اس ميں كوئى لہو لعب اور موسيقى وغيرہ نہ ہو، امام مالك اور امام شافعى اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے..
كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تم ميں سے كسى كو وليمہ كى دعوت دى جائے تو اسے اس دعوت ميں جانا چاہيے ”
اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تمہيں يہ دعوت دى جائے تو اسے قبول كرو ”
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:
” سب سے برا كھانا وليمہ كا وہ كھانا اور دعوت ہے جس ميں مالداروں كو دعوت دى جائے اور فقراء و غريب لوگوں كو چھوڑ ديا جائے، اور جس نے دعوت قبول نہ كى اس نے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كى ”
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
ان كے فرمان: ” وليمہ كا كھانا سب سے برا ہے ” كا معنى يہ ہے كہ جس دعوت وليمہ ميں مالدار قسم كے افراد كو دعوت دى جائے اور غريب و مسكين قسم كے لوگوں كو مدعو نہ كيا گيا ہو، ان كى مراد يہ نہيں ہے كہ وليمہ كى دعوت سب سے برى دعوت ہے.
جس شخص كو مدعو كيا جائے اس معين شخص كے ليے دعوت وليمہ ميں شركت كرنا واجب ہے، يا كسى گروپ كو دعوت ملے تو بھى اس معين كردہ گروپ پر دعوت وليمہ ميں شركت كرنا واجب ہو گا.
اور اگر دعوت ديتے ہوئے كوئى يہ كہے: لوگو دعوت وليمہ ميں آنا اور اس دعوت كو قبول كرو تو پھر اس دعوت ميں جانا واجب نہيں، اور نہ ہى مستحب ہے، بلكہ اس دعوت وليمہ ميں شريك ہونا جائز ہو گا؛ كيونكہ يہ عمومى دعوت ميں شامل ہوتى ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 213 ) مختصرا
دوم:
اور اگر وليمہ كى دعوت ميں كوئى ايسا شخص بھى آيا ہو جو اسے تكليف و اذيت ديتا ہے تو اس وليمہ ميں جانا واجب نہيں بلكہ اس كے ليے دعوت وليمہ كو ترك كرنے ميں يہ عذر بن جائيگا.
بعض فقھاء نے ايسا ہى بيان كيا ہے، ليكن اسے چاہيے كہ وہ دعوت دينے والے شخص سے معذرت كر لے، يا پھر وہاں جائے ليكن جلد واپس نكل آئے.
تحفۃ المحتاج ميں دعوت وليمہ كى شروط بيان كرتے ہوئے درج ہے:
” اور وہ دعوت ايسى جگہ نہ ہو جہاں ايسے مدعوين بھى ہوں جو كسى ظاہرى عداوت و دشمنى كى وجہ سے اسے تكليف ديں يا پھر حسد كرتے ہوں يا پھر وہاں ايسے افراد ہوں جن كے ساتھ بيٹھنا اس كى شايان شان نہ ہو مثلا رذيل قسم كے لوگ ” انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 7 / 430 ).
سوم:
اور اگر وليمہ كى دعوت نہ ہو بلكہ كوئى عام دعوت اور تقريب ہو تو اس كو قبول كرنا واجب نہيں، چاہے اس ميں كسى معين شخص كو مدعو كيا گيا ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ختنہ وغيرہ اور وليمہ كے علاوہ باقى ہر قسم كى دعوت كا حكم مستحب ہے، كيونكہ اس ميں كھانا كھلايا جاتا ہے، اور اس ميں شركت اور اس دعوت كو قبول كرنا مستحب تو ہے ليكن واجب نہيں، امام مالك امام شافعى اور امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب كا يہى قول ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 218 ).
اس بنا پر اگر يہ دعوت وليمہ نہيں تو آپ كے ليے اس طرح كى دعوت كو چھوڑنا اور وہاں نہ جانے ميں كوئى حرج ہيں.
چہارم:
عورت كا اپنے بہن بھائيوں سے صلہ رحمى كرنا اور رشتہ و تعلق دارى ركھنا يقينى طور پر شرعى امر ہے؛ كيونكہ كتاب و سنت ميں صلہ رحمى اور رشتہ دارياں قائم كرنے كا حكم ديا گيا ہے اور قطع تعلقى اور قطع رحمى كرنا حرام ہے، اور يہ صلہ رحمى ايك دوسرے سے رابط ركھنے اور حال دريافت كرنے سے ہوتى ہے انسان ميں جتنى استطاعت ہو اس كے مطابق اسے يہ كام ضرور كرنا چاہيے.
آپ كو چاہيے كہ اس عظيم رشتے اور ناطے ميں آپ كوتاہى مت كريں، اور بھائيوں كى طرف سے سختى اور آپ كے ساتھ مہربانى اور خندہ پيشانى سے پيش نہ آنا آپ كو ان سے قطع رحمى پر نہ ابھارے، بلكہ آپ كو ان سے صلہ رحمى كا اجروثواب حاصل ہو گا، چاہے وہ آپ سے اس سلسلہ ميں كمى و كوتاہى بھى كريں.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يہ صلہ رحمى نہيں كہ جو صلہ رحمى كرے اس سے بدلے ميں صلہ رحمى كى جائے، ليكن صلہ رحمى كرنے والا تو وہ ہے جس سے اس كے رشتہ داروں نے قطع تعلقى كى ہو اور وہ ان سے صلہ رحمى سے پيش آتا ہو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5645 ).
يعنى جو اپنے رشتہ داروں كو صلہ رحمى كرنے كا بدلہ ديتے ہوئے ان سے صلہ رحمى كرتا ہے، اور ان كے ساتھ اچھا سلوك كرتا ہے اور اگر وہ اچھا برتاؤ كرتے ہيں تو وہ بھى ان كے ساتھ اچھا برتاؤ كرتا ہے، يہ شخص صلہ رحمى نہيں كر رہا جس طرح شريعت نے چاہا ہے، بلكہ يہ تو اس كا بدلہ چكا رہا ہے، بلكہ شرعى طور پر تو صلہ رحمى اس طرح مطلوب ہے كہ جو رشتہ دار اس كے ساتھ اچھا سلوك اور اچھا برتاؤ نہيں كرتے بلكہ اس سے برا رويہ اختيار كيے ہوئے ہيں وہ ان كے ساتھ اچھا سلوك اور بہتر برتاؤ كرے تو يہ صلہ رحمى ہو گى.
ليكن اگر زيادہ ملاقات اور ميل جول سے نفرت پيدا ہوتى ہے تو پھر اس ميں كمى كرنا اور وقتا فوقتا ميل جول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ان سے رابطہ اور تعلق قائم ركھے، اور ٹيلى فون وغيرہ پر حال دريافت كرتا رہے.
ليكن اس سے بھى بہتر اور اچھا تو يہ ہے كہ آپ اور آپ كے بھائيوں ميں رنجش اور غلط فہمى ہے وہ دور كريں، اور بھائيوں كے ساتھ اپنے تعلقات اچھے اور بہتر كرنے ميں پورى كوشش كريں كيونكہ دنيا و آخرت ميں آپ كے ليے يہى بہتر ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب