0 / 0

ایسی محبت جس کا اختتام شادی پر ہو؛ کیا یہ حرام ہے؟

سوال: 84102

کیا ایسی محبت جس کا اختتام شادی ہو وہ حرام ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اجنبی مرد اور عورت کے درمیان پیدا ہونے والے تعلق کو لوگ “محبت” کا نام دیتے ہیں، حالانکہ یہ متعدد شرعی اور اخلاقی برائیوں اور خرابیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔

کوئی بھی عقل مند شخص اس تعلق کے حرام ہونے میں معمولی سا بھی شک نہیں کرتا؛ کیونکہ اس تعلق میں اجنبی مرد اور عورت کے درمیان خلوت بھی ہوتی ہے، مرد اجنبی عورت کو دیکھتا بھی ہے، پھر محبت اور عشق سے بھری باتیں بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے فطری احساسات بھی مشتعل ہوتے ہیں اور شہوت بھی بھڑک اٹھتی ہے، جبکہ بسا اوقات یہ تعلق اس سے بھی بہت آگے تک بڑھ جاتا ہے ، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ مشاہدے اور زمینی حقائق میں موجود ہے۔

ہم نے پہلے سوال نمبر: (84089) کے جواب میں اس سے متعلق متعدد حرام امور کو ذکر کیا ہے، آپ اس کا ضرور مطالعہ کریں۔

دوم:

تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان پہلے سے پائی جانے والی محبت پر مبنی اکثر شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں، جبکہ ایسی اکثر شادیاں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں جو عام طور پر سابقہ محبت پر مبنی نہیں ہوتیں، جسے لوگ عام طور پر “مروّجہ شادی” کہہ دیتے ہیں۔

چنانچہ اس کے متعلق ایک فرانسیسی ماہر عمرانیات (Sociology) پروفیسر ساول جورڈن نے تحقیقاتی جائزہ پیش کیا اور اس کے نتائج کچھ یوں تھے:

“اگر لڑکا اور لڑکی کے مابین شادی سے پہلے محبت نہ ہوئی ہو تو شادی کی کامیابی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے”

اسی طرح ایک اور ماہر عمرانیات پروفیسر اسماعیل عبد الباری نے 1500 جوڑوں پر تحقیقی مطالعہ کیا تو اس کے نتائج بھی کچھ یوں تھے کہ 75 فیصد محبت کی شادی کا انجام طلاق ہوا جبکہ مروّجہ شادیوں میں طلاق کا تناسب 5 فیصد سے بھی کم تھا، یعنی جن شادیوں میں لڑکا اور لڑکی کے ما بین محبت نہیں تھی ان میں طلاق کا تناسب 5 فیصد بھی نہیں تھا۔

یہاں پر ان نتائج کے کچھ اسباب ذکر کرنا مناسب ہے:

  1. فرط جذبات انسان کو خامیاں دیکھنے نہیں دیتے جیسے کہ مشہور مقولہ بھی ہے کہ : “محبت اندھی ہوتی ہے” اور “محبت میں سب اچھا ہوتا ہے” تو ایسا ممکن ہے کہ دونوں میں یا کسی ایک میں کوئی ایسی خامی ہو جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے لئے مناسب نہ ٹھہرتے ہوں اور یہ خامیاں شادی کے بعد ہی عیاں ہوتی ہیں۔
  2. عاشق اور معشوق کو یہ گمان ہوتا ہے کہ محبت زندگی کا نہ ختم ہونے والا سفر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ صرف عشق اور خوابوں کی دنیا میں ہی مست رہتے ہیں۔۔۔ جبکہ زندگی کے حقیقی مسائل اور ان مسائل سے نمٹنے کا طریقہ ان کی گفتگو کا حصہ ہی نہیں ہوتا، تو ان کا یہ گمان شادی کے بعد ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے؛ کیونکہ شادی کے بعد زندگی کے حقیقی مسائل اور ذمہ داریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
  3. مباحثہ اور بات چیت عاشق اور معشوق کی عادت ہی نہیں ہوتی، ان میں سے ہر ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لئے قربانی اور ایثار کا عادی بن چکا ہوتا ہے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں جھگڑے کا سبب ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک اپنے ساتھی کو راضی رکھنے کے لئے ایثار کرنا چاہتا ہے! جبکہ شادی کے بعد معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے، ان کی باہمی بات چیت بھی ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیتی ہے!!؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں کو بات چیت کے بغیر ہی ایک دوسرے کو راضی رکھنے کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے۔
  4. عاشقی میں دونوں ہی اپنے ساتھی کو اصلی چہرہ نہیں دکھاتے! اس لیے ایک دوسرے کے لئے نرمی، فیاضی اور مر مٹنے کے وعدے سب کچھ ہی وہ وقتی چہرہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو راضی رکھنے کی کوشش ہوتی ہے اور یہ صرف مزعومہ “محبت” کے دورانیے تک ہی محدود ہوتا ہے، اس رویے کو پوری زندگی قائم رکھنا ممکن نہیں ہوتا، اسی لیے شادی کے بعد دونوں کا اصل چہرہ عیاں ہوتا ہے اور پھر ساتھ ہی مسائل بھی جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔
  5. مزعومہ “محبت” کا مرحلہ عام طور پر سپنوں اور مبالغہ آرائیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ شادی کے بعد کے حقیقی معاملات سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ اس مرحلے میں عاشق آسمان سے تارے توڑ لانے کے وعدے کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف لڑکی بھی اس بات سے کم پر راضی نہیں ہوتی کہ وہ دنیا جہان کی لڑکیوں سے خوشحال ترین ہو گی۔۔۔ الخ جبکہ دوسری جانب لڑکی یہ کہتی ہے کہ وہ ایک کمرے میں زندگی گزار دے گی اور اس روئے زمین پر لڑکے کو اپنا جیون ساتھی بنانے سے بڑی کوئی خواہش یا تمنا ہے ہی نہیں! اسے تو بس اپنا عاشق ہی کافی ہے!! اسے کسی اور چیز کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں!! عاشق کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی نے کہا کہ: “ہم چڑیا کے گھونسلے میں رہ لیں گے اور چٹنی روٹی پر گزارہ کر لیں گے” یہ بات بہت ہی مبالغہ آمیز ہے؛ اسی لیے شادی کے فوری بعد لڑکا اور لڑکی ان دعووں کو بھول جاتے ہیں یا پھر عمداً نظر انداز کر دیتے ہیں اور پھر لڑکی کی جانب سے خاوند کی کنجوسی اور ضروریات پوری نہ کرنے کی شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں جبکہ خاوند اپنی بیوی کی شاہ خرچیوں پر بلبلا اٹھتا ہے۔

تو ان مذکورہ اور دیگر اسباب کی بنا پر ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی شادی کے بعد صاف لفظوں میں اقرار کرے کہ اس نے دھوکا کھایا! یا جلد بازی سے کام لیا!

لڑکا ندامت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ اس نے فلاں لڑکی سے شادی کر لی ہوتی جس کا اس کے والد نے مشورہ دیا تھا، دوسری طرف لڑکی ندامت کا اظہار کر رہی ہوتی ہے کہ وہ فلاں لڑکے سے شادی کر لیتی جس کو داماد بنانے پر اس کے اہل خانہ نے رضا مندی ظاہر کی تھی؛ لیکن لڑکی کی پسند کے پیش نظر انہوں نے اس لڑکے کو نظر انداز کر دیا تھا!

تو ایسے میں یہی نتیجہ برآمد ہو گا کہ ان شادیوں میں طلاق کی شرح خوفناک حد تک پہنچ جاتی ہے؛ حالانکہ یہی لڑکا اور لڑکی اس خام خیالی میں تھے کہ ان کی جوڑی دنیا کی خوبصورت ترین جوڑی ہو گی!!!

سوم:

مذکورہ بالا تمام اسباب ظاہری اور حسی اسباب ہیں، زمینی حقائق ان کی تصدیق بھی کرتے ہیں، تاہم ہمیں ان شادیوں کی ناکامی کے بنیادی ترین سبب کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ان شادیوں کی بنیاد اللہ تعالی کی نافرمانی پر مبنی ہے؛ -کیونکہ اسلام میں گناہ پر مبنی اس تعلق کا کوئی وجود نہیں ہے چاہے یہ تعلق شادی پر ہی کیوں نہ منتج ہو- تو اس نافرمانی کے عوض اللہ تعالی کی جانب سے مبنی بر عدل سزا لازمی ہوئی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا 

ترجمہ: اور میرے ذکر سے اعراض کرنے والے کے لئے تنگی والی زندگی ہے۔[طہ: 124] یعنی تنگی والی زندگی اللہ تعالی کی نافرمانی اور اللہ کی وحی سے رو گردانی کے نتیجے میں ملے گی۔

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

ترجمہ: اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے۔[الأعراف: 96] تو برکت اللہ تعالی کی جانب سے ایمان اور تقوی کے بدلے میں ملے گی، چنانچہ جس وقت ایمان اور تقوی ہی ختم ہو گیا یا کم ہو گیا تو برکت بھی ختم یا کم ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 

ترجمہ: کوئی مرد ہو یا عورت وہ ایمان کی حالت میں عمل صالح کرے تو ہم اسے لازمی طور پر خوشحال زندگی عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کے بدلے میں انہیں اجر بھی لازمی دیں گے۔ [النحل: 97] تو یہاں پر خوشحال زندگی ایمان اور عمل صالح کا پھل ہے۔

اللہ تعالی نے سچ فرمایا کہ:

 أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ 

ترجمہ: کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی رضا پر رکھی ہو یا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی بنیاد ایک کھوکھلے گڑھے کے کنارے پر رکھی ہو جو اس کو بھی لے کر جہنم کی آگ میں جا گرے؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔ [التوبة: 109]

اس لیے اگر کسی کی شادی اس حرام تعلق پر مبنی ہے تو اسے جلد از جلد توبہ اور استغفار کرنا چاہیے، اور نئے سرے ایمان، تقوی، اور عمل صالح سے بھر پور زندگی کی ابتدا کرے۔

مزید کے لئے آپ سوال نمبر: (23420) کا مطالعہ لازمی کریں، اس سے آپ کو مزید فائدہ ہو گا۔

اللہ تعالی سب کو اپنی رضا اور محبت کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android