معدہ ميں زخم ( كينسر ) كى بنا مجھے كئى برس تك رمضان المبارك كے روزے چھوڑنا پڑے اب ميرے علم ميں نہيں كہ كتنے رمضان كے روزے نہيں ركھے، ميں نے ان روزوں كا فديہ بھى ادا كيا، الحمد للہ بعد ميں مجھے اس بيمارى سے شفا حاصل ہو گئى تو كيا ميرے ذمہ ان روزوں كى قضاء واجب ہوتى ہے ؟
دائمى بيمارى سے شفايابى اور فديہ كى ادائيگى كے بعد روزہ كى قضاء
سوال: 84203
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مريض كے ليے رمضان المبارك كے روزے نہ ركھنے مباح كيے ہيں، اور وہ ان كے بدلے دوسرے ايام ميں قضاء كريگا، جيسا كہ اللہ سبحانہ كے درج ذيل فرمان ميں ہے:
تو جو بھى تم ميں سے اس ماہ مبارك كو پا لے وہ اس كے روزے ركھے، اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).
يہ تو اس حالت ميں ہے جب مريض كا مرض شفايابى اور زائل ہونے والا ہو، ليكن اگر مرض سے شفايابى كى اميد نہ ہو ـ ڈاكٹروں كى رپورٹ كے مطابق ـ تو وہ مريض روزہ نہيں ركھےگا، بلكہ ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيگا.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 37761 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
جب مريض نے روزہ نہ ركھا اور اس كى بيمارى دائمى ہو اس سے شفا كى اميد نہ ہو اور اس نے ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو كھانا بھى كھلا ديا اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قدرت كاملہ سے اسے دائمى مرض سے شفايابى نصيب فرما دى تو اس پر ان روزوں كى قضا لازم نہيں آتى؛ كيونكہ اس نے اپنے ذمہ واجب كى ادائيگى كر دى ہے، اور وہ اس سے برى ہو چكا ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 3 / 285 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب مريض كسى ايسے مرض سے شفاياب ہو جائے جس كے متعلق ڈاكٹر حضرات كا فيصلہ تھا كہ اس سے شفايابى محال ہے، تو اس مريض كو رمضان المبارك كے كچھ ايام بعد اسے شفايابى نصيب ہوئى تو كيا اس سے سابقہ روزوں كى قضاء كا مطالبہ كيا جائيگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب كسى شخص نے حسب عادت يا ماہر اور موثوق ڈاكٹر حضرات كى رپورٹ كى وجہ رمضان كے مكمل يا كچھ روزے دائمى مرض كى بنا پر نہ ركھے تو اس پر ہر ايك روزہ كے بدلہ ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے اور جب وہ ايسا كر لے، اور اللہ تعالى بعد ميں اسے شفايابى نصيب كر دے تو جن روزوں كے بدلے اس نے كھانا كھلايا ہے ان كى قضاء اس پر لازم نہيں، كيونكہ وہ روزے كے بدلے كھانا كھلا كر برى الذمہ ہو چكا ہے.
اور جب وہ برى الذمہ ہو چكا ہے تو شفاياب ہونے كے بعد كوئى واجب اس سے محلق نہيں كيا جائيگا، اس كى مثال وہ ہے جو فقھاء كرام نے بيان كيا ہے كہ اگر كوئى شخص كسى ايسے عذر كى بنا پر حج كرنے سے عاجز ہو جس عذر كا ختم اور زائل ہونا ممكن نہيں، تو وہ اپنى طرف سے كسى اور كو حج كروائے اور پھر وہ اس عذر سے شفاياب ہو جائے تو اس پر دوبارہ حج لازم نہيں آتا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 126 ).
ان سطور كے آخر ميں ہم اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں جس نے آپ كو شفايابى و عافيت سے نوازا، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو مزيد اپنے فضل و كرم اور احسان سے نوازے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات