ميں معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ نكاح كس طرح ہوتا ہے يعنى شب زفاف كى تقريب كس طرح ہو گى اور اس ميں كتنے افراد مدعو كيے جا سكتے ہيں ؟
كيا اس تقريب ميں يا وليمہ ميں آنے والوں كا استقبال كرنے كے ليے موسيقى استعمال كى جا سكتى ہے ؟
ميں يہ بھى معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ رخصتى اور وليمہ كى تقريب كا ذمہ دار كون ہو گا آيا وہ خاوند كے ذمہ ہے يا دلہن كے ذمہ ؟
ميں اس كا جواب جتنا بھى جلد ممكن ہو معلوم كرنا چاہتا ہوں تا كہ اپنے خاندان والوں كو بتا سكوں، اور ان شاء اللہ ميں اسے اپنى زندگى ميں نافذ كرونگا، تا كہ اللہ تعالى ميرى شادى ميں بركت عطا فرمائے ؟
بيوى كے ساتھ مجامعت كے وقت كيا كيا جائے
سوال: 854
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب مسلمان شخص كى بيوى كى رخصتى ہو تو مسلمان كے ليے كئى ايك امور مستحب ہيں جو سنت سے ثابت ہيں جو ذيل ميں بيان كيے جاتے ہيں:
اول:
اس كا دل بہلائے مثلا اس كو پينے كے ليے كوئى چيز پيش كرے اس كى دليل درج ذيل ہے:
اسماء بنت يزيد بن سكن بيان كرتى ہيں:
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو دلہن بنايا اور پھر آپ كے پاس آئى اور آپ كو بلايا تو آپ آ كر اس كے ساتھ بيٹھ گئے اور ايك بڑا پيالہ لايا گيا جس ميں دودھ تھا آپ نے اسے نوش فرمايا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديا تو اس نے سر جھكا ليا اور شرماگئيں.
اسماء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں: تو ميں نے اسے ڈانٹا اور كہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاتھ سے پكڑ لو وہ بيان كرتى ہيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے لے كر تھوڑا سا پيا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا: اپنے ساتھى كو دو ( يعنى آپ اپنے آپ كو مراد لے رہے تھے ) ..
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح كہا ہے.
دوم:
بيوى كے سر پر ہاتھ ركھ كر اس كے ليے دعا كرنى اور بسم اللہ پڑھنى اور بركت كى دعا كرتے ہوئے جو حديث ميں وارد ہے وہ كلمات كہنے:
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى شخص كسى عورت سے شادى كرے يا كوئى خادم اور غلام خريدے تو وہ يہ كلمات كہے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ "
اے اللہ ميں اس كى بھلائى طلب كرتا ہوں اور جس پر تو نے اسے پيدا كيا ہے اس كى بھلائى كا سوال كرتا ہوں، اور تيرى پناہ مانگتا ہوں اس كے شر سے، اور اس چيز كے شر سے جس پر تو نے اسے پيدا كيا ہے "
ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: ابو سعيد نے يہ الفاظ زائد كيے ہيں كہ پھر وہ اس كى پيشانى پكڑ كر عورت اور خادم ميں بركت كى دعا كرے.
اسے ابو داود نے سنن ابو داود كتاب النكاح باب فى جامع النكاح ميں روايت كيا ہے، اور صحيح الجامع حديث نمبر( 341 ) ميں اسے حسن قرار ديا گيا ہے.
سوم:
خاوند كے ليے مستحب ہے كہ وہ بيوى كو دو ركعت پڑھائے اور خود امامت كرائے اور بيوى اس كے پيچھے كھڑى ہو كيونكہ سلف سے ايسا كرنا منقول ہے، اس ميں دو اثر ملتے ہيں:
پہلا:
ابو سعيد مولى ابى اسيد بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ميں كچھ نے انہيں يہ تعليم دى اور انہيں فرمايا:
" جب تم اپنى بيوى كے پاس ( پہلى رات ) جاؤ تو دو ركعت ادا كرو اور پھر اللہ تعالى سے اس چيز كى خير و بھلائى كا سوال كرو جو تمہارے پاس آئى ہے، اور اس كے شر سے پناہ مانگو.
دوسرا:
شقيق رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: ابو حريز نامى ايك شخص آيا اور ( عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما ) كو عرض كرنے لگا: ميں نے ايك نوجوان كنوارى لڑكى سے شادى كى ہے، اور مجھے خطرہ ہے كہ كہيں وہ مجھے ناپسند نہ كرنے لگے تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
الفت و محبت تو اللہ كى جانب سے ہے، اور ناپسنديدگى شيطان كى جانب سے، وہ يہ چاہتا ہے كہ اللہ نے جو تمہارے ليے حلال كيا ہے اسے تمہارے ليے ناپسند بنا دے، لہذا جب تم اپنى بيوى كے پاس جاؤ تو اسے كہو كے وہ تمہارے پيچھے دو ركعت ادا كرے "
مندرجہ بالا دونوں اثر ابن ابى شيبہ نے روايت كيے ہيں اور ان كى تخريج علامہ البانى رحمہ اللہ نے آداب الزفاف ميں كى ہے.
چہارم:
جب وہ بيوى سے مجامعت كرنے لگے تو درج ذيل دعا پڑھے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جب تم ميں سے كوئى اپنى بيوى كے پاس جائے اور وہ يہ دعا پڑھے تو ان دونوں كو ہونے والى اولاد كو شيطان ضرر نہيں ديگا:
" بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا "
شروع كرتا ہوں اللہ كے نام سے، اے اللہ ہميں شيطان سے دور ركھ، اور جو ہميں اولاد عطا كرے اسے بھى شيطان سے دور ركھ "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے ديكھيں فتح البارى حديث نمبر ( 3271 ).
اس موضوع ميں مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ علامہ البانى رحمہ اللہ كى كتاب آداب الزفاف صفحہ ( 91 ) كا مطالعہ كريں.
نكاح كے وليمہ ميں مدعوين كى تعداد كى كوئى حد مقرر نہيں، لہذا آپ اپنے رشتہ داروں اور دوست و احباب ميں سے جسے چاہيں دعوت ديں، اور جس كو دعوت دينے ميں مصلحت و فائدہ ہو اسے آپ دعوت ديں.
شرعى طور پر آپ كے ليے جائز نہيں كہ اس تقريب ميں كوئى بھى برائى اور حرام عمل كيا جائے مثلا موسيقى اور مرد و عورت كا اختلاط، يا مردوں كے سامنے عورتوں كا رقص وغيرہ يہ سب كا اللہ كى ناراضگى كا باعث بنتے ہيں.
اور پھر آپ اللہ كى جانب سے ملنے والى نعمت كو كس طرح معصيت و نافرمانى اور برائى ميں تبديل كرتے ہيں، عورتوں كے ليے ممكن ہے كہ شريعت نے ان كے ليے جو اجازت دى ہے وہ كريں مثلا مباح اور اچھے اشعار پڑھنا، اور ان كے ليے صرف دف بجانا جائز ہے اور يہ بھى مردوں سے عليحدگى ميں.
شادى ميں نكاح كے بعد وليمہ كرنا مسنون ہے اگر استطاعت ہو تو مہمانوں كے ليے بكرا ذبح كيا جائے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:
" تم وليمہ كرو چاہے ايك بكرى ہى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2048 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ ميں بركت عطا كرے اور آپ پر بركت نازل كرے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد