ميرے اور خاوند كے مابين جھگڑا ہوا تو خاوند نے غصہ كى حالت ميں طلاق كى قسم اٹھائى ليكن اسے ادراك تھا بعد ميں ہمارى صلح ہو گئى، پھر ايك بار دوبارہ اس سے بھى زيادہ اختلاف ہوا تو ہم نے عليحدگى كا فيصلہ كر ليا تو شوہر نے ميرے گھر والوں كے سامنے طلاق كے الفاظ بولے، اور پھر دوبارہ نكاح رجسٹرار كے سامنے، كيا اب ميں تين طلاق والى شمار ہوتى ہوں يا كہ رجوع ہو سكتا ہے يا نہيں ؟
اور كيا اگر رجوع كرنا صحيح ہے تو كيا اس كے ليے حلالہ كى شرط ہو گى يا نہيں ؟
سسرال والوں كے سامنے طلاق دى اور پھر نكاح رجسٹرار كى موجودگى ميں كيا دو طلاق شمار ہونگى ؟
سوال: 85554
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع بھى ہوتى ہے اور نہيں بھى ہوتى، يہ غصہ كى شدت كے اعتبار سے ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22034 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
نكاح رجسٹرار كے سامنے جو طلاق دى تھى اگر تو خاوند نے اس سے پہلى طلاق كى تاكيد كا ارادہ كيا جو آپ كے گھر والوں كے سامنے دى تھى، يا پھر اس طلاق كى خبر دينے كا ارادہ كيا تھا تو يہ تيسرى طلاق شمار نہيں ہوگى.
ليكن اگر اس نے پہلى طلاق كى بجائے اور طلاق دينے كا ارادہ كيا تھا تو پھر اس كى نيت كے مطابق ہوگا، اس ليے اس ميں خاوند كى نيت اور قصد و ارادہ معتبر ہوگا.
اگر نكاح رجسٹرار كے سامنے دى گئى طلاق ـ اگر خاوند نے اس كو پہلى طلاق كے علاوہ نئى طلاق كى نيت كى تھى ـ تو يہ دوران عدت دى گئى طلاق شمار ہوگى، اور جمہور علماء كرام كے ہاں يہ عدت ميں دى گئى طلاق واقع ہوگى كيونكہ طلاق رجعى كى عدت ميں عورت بيويوں كے حكم ميں شامل ہوتى ہے اور اسے طلاق ملحق كى جائيگى.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” جمہور فقھاء ـ احناف، شافعى مالكى كا مسلك اور حنابلہ كى ايك روايت ميں ـ كے ہاں طلاق رجعى كى عدت ميں دى گئى طلاق واقع ہوگى، حتى كہ اگر خاوند نے مدخولہ بيوى سے ـ تمہيں طلاق ـ كہا اور پھر عدت ميں اسے تجھے طلاق كے الفاظ بولے تو يہ دوسرى طلاق شمار ہوگى، جب تك يہ پہلى طلاق كى تاكيد نہ ہو، اور اگر وہ پہلى كى تاكيد كرنا چاہتا ہے تو پھر يہ دوسرى طلاق واقع نہيں ہوگى ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 12 ).
سوم:
اگر مذكورہ طلاق عورت كو حيض كى حالت ميں دى گئى ہو يا پھر ايسے طہر ميں جس ميں بيوى سے جماع كيا تھا تو بعض اہل علم كا فتوى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر (72417 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
چہارم:
جب تين طلاقيں ہو جائيں تو عورت اپنے خاوند سے بائن ہو جاتى ہے، اور وہ اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو سكتى جب تك كہ وہ كسى دوسرے مرد سے صحيح نكاح نہ كر لے، نكاح حلال نہيں بلكہ نكاح رغبت ہونا چاہيے، نكاح كے بعد وہ دوسرا خاوند اس سے وطئ كرے اور بعد ميں يا تو فوت ہو جائے يا پھر خود ہى طلاق دے دے تو اس صورت ميں پہلے خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ اس عورت سے نئے نكاح اور نئے مہر كے ساتھ نكاح كر لے.
ليكن نكاح حلالہ حرام اور باطل ہے، كيونكہ اس ميں رغبت كے ساتھ نكاح نہيں كيا جاتا، بلكہ اس نيت سے نكاح ہوتا ہے كہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہونا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو حلالہ كرنے اور حلالہ كرانے والے پر لعنت كى ہے.
نكاح حلالہ سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عام اہل علم جن ميں حس بصرى، امام نخعى امام مالك ليث، ثورى، اور ابن مبارك اور امام شافعى شامل ہيں كے قول كے مطابق نكاح حلالہ حرام اور باطل ہے ”
ديكھيں: المغنى ( 7 / 137 ).
اور يہ بھى كہتے ہيں:
” نكاح حلالہ فاسد ہے اس سے پہلے خاوند كے ليے اباحت حاصل نہيں ہوگى ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 140 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات