ميرے ماموں عمر رسيدہ ہونے كے ساتھ ساتھ نابينا بھى ہيں، انہوں نے چار برس قبل حج كيا ليكن اس ميں طواف افاضہ كرنا بھول گئے، اور طواف وداع كرنے پر بھى قادر نہ رہے، چنانچہ انہيں اپنا حج مكمل كرنے كے ليے كيا كرنا ہو گا، كيا وہ اپنا طواف افاضہ كرنے كے ليے كسى دوسرے شخص كو وكيل بنا سكتے ہيں ؟
طواف افاضہ بھول گيا اور واپس اپنے ملك چلا گيا جہاں سے واپس مكہ آنا ممكن نہيں
سوال: 85667
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طواف افاضہ اركان حج ميں سے ايك ركن ہے، محرم شخص طواف افاضہ كيے بغير حلال نہيں ہو سكتا، اس ليے آپ كے ماموں ابھى تك احرام كى حالت ميں ہى ہيں، اس ليے ان پر درج ذيل امور واجب ہيں:
1 – طواف افاضہ كرنے تك وہ بيوى سے جماع كرنے سے اجتناب كريں، حتى كہ طواف افاضہ كر كے احرام سے تحلل اكبر كر ليں.
اور اگر اس نے بے علمى ميں جماع كر ليا ہے تو وہ ابھى تك احرام كى حالت ميں ہى ہيں، اور اس پر كچھ گناہ نہيں، اب اسے جماع كرنے سے اجتناب كرنا لازم ہے.
2 – مكہ جا كر طواف افاضہ كريں.
اور اس كے مستحب ہے كہ وہ عمرہ كے ليے مكہ جائے اور عمرہ سے فارغ ہو كر بال منڈوانے كے بعد طواف افاضہ كرے، يہ اس ليے ہے تا كہ وہ مكہ ميں بغير احرام داخل نہ ہو.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 23 / 194 ).
3 – رہا طواف وداع كا مسئلہ تو جب طواف افاضہ سے فارغ ہو اور مكہ سے فورا واپس آ جائے تو طواف افاضہ ہى طواف وداع كے ليے بھى كافى ہو جائگا.
دوم:
اس كے ليے طواف اضافہ كرنے كے ليے اپنا وكيل بنانا جائز نہيں؛ كيونكہ طوف افاضہ ركن ہے، چنانچہ اس ميں نيابت نہيں ہو سكتى.
ليكن اگر بيمارى كى وجہ سے يا پھر مالى بنا پر وہ مكہ نہيں آ سكتا تو بعض اہل علم اسے محصر كے حكم ميں شمار كرتے ہيں، چنانچہ وہ اپنى جگہ پر ہى ايك بكرا ذبح كر كے فقراء و مساكين ميں تقسيم كر دے، تو اس طرح وہ احرام سے حلال ہو جائيگا، اس كے بعد اس كے ذمہ كچھ لازم نہيں.
ليكن اگر اس كا يہ حج فرضى تھا تو وہ ادا نہيں ہوا بلكہ اس كے ذمہ باقى ہے؛ كيونكہ اس كا يہ حج مكمل ہى نہيں ہوا، اس ليے جب بھى اس ميں حج كرنے كى استطاعت ہو گى اس پر حج كرنا فرض ہے.
الرملى ” اسنى المطالب ” كے حاشيہ ميں لكھتے ہيں:
بلقينى نے استنباط كيا ہے كہ: اگر حائضہ عورت طواف افاضہ نہ كر سكے اور طہر تك اس كا وہاں رہنا بھى ممكن نہ ہو اور وہ بغير طواف كيے اپنے ملك واپس آ جائے تو وہ احرام كى حالت ميں ہى ہے، اور اس كے پاس نفقہ بھى ختم ہو چكا ہو، اور اس كا بيت اللہ تك جانا بھى ممكن نہ رہے تو وہ محصر كى طرح ہى ہے، چنانچہ وہ نيت كے ساتھ حلال ہو جائيگى اور بكرا ذبح كر كے بال كٹوا لے ” انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ اسنى المطالب ( 1 / 529 ).
اور مغنى المحتاج ( 2 / 314 ) اور نھايۃ المحتاج ( 3 / 317 ) ميں بھى ايسے ہى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب