سوال: فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا اور بلند آواز سے دعا کرنا بدعت ہے،
میرا سوال یہ ہے کہ: کیا اپنی مسجد کے امام سمیت جو نمازی بھی ایسا کرتے ہیں انہیں روکنا مجھ پر واجب ہے؟ نیز انہیں روکنے کیلئے سب سے بہترین طریقہ کیا ہے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان میں سے کچھ بہت ہی سخت مزاج ہیں، یعنی حق بات کو جلدی سے قبول کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حق بات کو بالکل مسترد کر دیں، شیخ محترم! مجھے کوئی حل بتائیں، جزاکم اللہ خیراً
کیا بدعات میں ملوث شخص کو روکنا چاہیے؟
سوال: 87916
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا دین کا بہت بڑا شعار ہے، اور اسی میں امت کی روح کیلئے بقا ہے۔
” الموسوعة الفقهية ” ( 6 / 248 ) میں ہے کہ:
” نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنے سے متعلق تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ یہ شرعی عمل ہے، بلکہ نووی اور ابن حزم رحمہ اللہ نے اس عمل کے واجب ہونے پر اجماع بھی نقل کیا ہے، مزید بر آں کتاب و سنت سے آیات و احادیث کی بہت زیادہ تعداد سمیت اجماعِ امت اس بات پر شاہد ہے کہ یہ اسی خیر خواہی میں شامل ہے جو دین کا حصہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کا کام کرنے کیلئے دعوت دے، اور برائی سے روکے، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [آل عمران : 104]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھے تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے)”
امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا دین کی بنیاد ہے، بلکہ رسولوں کے پیغام کی حقیقت ہے، اگر اس کام کو ختم کر دیا جائے، اوراس سے متعلقہ علوم و سرگرمیوں کو معطل کر دیا جائے تو مقصد نبوت ختم ہو جائےگا، دینداری نا پید، ہر طرف بے چینی، اور لوگ تباہ و برباد ہو جائیں گے”
تاہم اہل علم کے اس کے حکم سے متعلق مختلف اقوال ہیں کہ : یہ فرض عین ہے؟ یا فرض کفایہ؟ یا نفل ہے، یا جس کام کا حکم دینا ہے اور جس سے روکنا ہے اس کام کا حکم اِس کا حکم ہوگا، یا پھر اس اصول ” جلب المصالح ودرء المفاسد “[حصول مفاد اور رفع کساد]کے تحت اس کا حکم الگ الگ ہوگا ؟ اس بارے میں چار موقف ہیں” انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا واجب ہے، لیکن یہ فرض کفایہ ہے، چنانچہ جب کچھ لوگ یہ فریضہ ادا کریں تو باقیوں کی ذمہ داری بھی ختم ہو جائے گی، لیکن اگر اس کام کا اہل صرف ایک ہی شخص ہو تو پھر اس کیلئے یہ کام فرضِ عین ہوگا، جیسے کہ دیگر فروضِ کفایہ سے متعلق مذکورہ صورت پیدا ہو تو یہی حکم ان کے بارے میں بھی لگتا ہے، چنانچہ اگر کوئی فرضِ کفایہ ادا کرنے والا نہ ہو تو باقی پر واجب ہوتا ہے، لہذا اگر گناہ کرنے والے کچھ لوگوں کے پاس سے آپ گزریں جنہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے تو آپ پر انہیں منع کرنا فرض عین ہوگا”
” اللقاء الشهري ” ( ملاقات نمبر: 35 )
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“جو شخص استطاعت کے باوجود نیکی کا حکم نہ دے، برائی سے مت روکے تو اس کا کیا حکم ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان، اور کمزور ایمان کا ملک ہے، اس کا دل قریب ہے کہ مردہ ہو جائے،اور اس گناہ کی سزا جلدی یا دیر اسے مل کر رہے گی ، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ[79] كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
ترجمہ: بنی اسرائیل کے ان لوگوں پر داود اور عیسی بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی جنہوں نے کفر کیا، کیونکہ وہ نافرمانیاں ، زیادتیاں [79] اور گناہ کرنے والوں کو گناہ سے نہیں روکتے تھے، ان کی یہ کارستانیاں بہت ہی سنگین [جرائم]ہیں ۔[المائدة : 78]
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ: (تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھے تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : (اگر لوگ برائی دیکھنے کے بعد بھی اسے تبدیل نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو سزا میں لپیٹ لے) اس حدیث کو امام احمد صحیح سند کیساتھ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس مفہوم کی احادیث بہت زیادہ ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اس ضروری امر پر اپنےپسندیدہ ترین انداز سے عمل کرنے کی توفیق دے “
” مجموع فتاوى شیخ ابن باز ” ( 6 / 504 )
دوم:
اہل علم نے اس مسئلے پر کچھ قواعد و ضوابط جمع کرنے کیلئے خوب محنت کی ہے، تا کہ اس اہم مسئلے کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی بنا پر کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے کچھ قواعد و ضوابط اپنی ایک مختصر تحریر میں جمع کیے ہیں، آپ کہتے ہیں:
“نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ جس کام کا حکم دے یا منع کرے، اسے اس مسئلے کے بارے میں مکمل سمجھ بوجھ ہو، اسی طرح کسی کام کا حکم یا منع کرتے ہوئے نرم انداز اپنائے، تا کہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو سکے، پھر حکم کرنے کے بعد حلم و بردباری سے سرشار رہے، تا کہ برائی سے ممانعت کے بعد ردّ عمل پر صبر کر سکے؛ کیونکہ اکثر برائی سے روکنے پر سخت ردّ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ) نیکی کا حکم دو، اور برائی سے روکو، پھر [ملنے والی ] تکلیف پر صبر بھی کرو۔[لقمان:17]”
” مجموع الفتاوی ” ( 15 / 167 )
اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے:
“نیکی کا حکم دینااور برائی سے روکنا [امر و نہی]اسی شخص کے شایانِ شان ہے جو تین صفات کا حامل ہو: امر و نہی کرتے ہوئے نرمی اختیار کرے، امر ونہی کرتے ہوئے معتدل رہے ، اور امر و نہی کرنے سے پہلے اس بارے میں مکمل علم حاصل ہو”
” جامع العلوم و الحكم ” ( ص 325 )
اس لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ صرف عالم ہی ادا کر سکتا ہے؛ کیونکہ وہی کسی بھی کام کا حکم شرعی دلیل کے مطابق بتلائے گا، اسی طرح مخاطب کو قائل کرنے کی صلاحیت بھی اس کے پاس ہوتی ہے، دلیل کو اچھے انداز سے سمجھا سکے گا۔
جبکہ عوام الناس کے ذمہ یہ ہے کہ مشہور و معروف مسائل کے بارے میں دوسروں کو حکم دیں، اور برائی سے روکیں، مثلاً: نماز، روزہ، زکاۃ وغیرہ کیلئے ترغیب دلائیں، اسی طرح بے پردگی، فحاشی، عریانی، چوری ، ڈاکے وغیرہ سے لوگوں کو اجتناب کی تلقین کریں۔
اور اگر کسی عام آدمی کو کوئی گناہ ہوتا ہوا نظر آئے، یا کسی بدعت پر عمل اس کے سامنے کیا جائے، اور اسے اس کے حکم کے متعلق مکمل بصیرت حاصل نہ ہو، یا بدعت پر عمل کیلئے کسی عالم نے دلائل کیساتھ گفتگو کی ہو، تو ایسی صورت میں کسی عام آدمی کو اپنی طرف سے نہیں روکنا چاہیے، بلکہ علمائے کرام کے اس بارے میں فتاوی جات پیش کرے، اور صرف مسئلے کا حکم بیان کرے، اس کیلئے فتنہ پروری، تفرقہ، اور اختلاف پیدا کرنے سے بالکل گریزاں رہے، اللہ تعالی اس کے اس عمل پر ضرور اجر و ثواب سے نوازے گا۔ [ان شاء اللہ]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
“بدعات اور خرافات سے روکنا اہل سنت و الجماعت کے اہل علم پر واجب ہے”
” فتاوى اللجنة الدائمة ” ( 2 / 345 )
سوم:
محترم سائل! آپ کیلئے یہ مشورہ ہے کہ آپ ہماری ویب سائٹ پر موجود درج ذیل فتاوی جات کا مطالعہ کریں: ( 11543 ) ، ( 21976 ) اور ( 26279 ) کا مطالعہ کریں۔
اور ان فتاوی جات کو سمجھنے کے بعد لوگوں کو پیار ، محبت، نرمی، اور حسن اخلاق سے سمجھائیں، چنانچہ اگر آپ کی بات مان لیں تو الحمد للہ، اور بصورتِ دیگر آپ کو اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعد کی ذمہ داری اہل علم کی ہے، جو ان سے گفتگو ، بات چیت کر کے انہیں قائل کریں، اس بارے میں مزید دیکھیں: (87779)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو کامیاب کرے، اور اپنے خصوصی کرم نوازی سے مالا مال فرمائے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات