ايك امام مسجد نے ايك عورت سے رشتہ طے كيا اور كچھ لوگوں كى موجودگى ميں عقد نكاح كر ليا، ليكن اعلان نكاح كرنے اور سركارى طور پر نكاح رجسٹر كرانے سے قبل بيوى كے گھر والوں كى لاعلمى ميں بيوى سے مباشرت كر لى اور جب اعلان نكاح اور سركارى طور پر رجسٹر كرايا گيا تو بيوى حاملہ تھى اور اس كے تين ماہ بعد ہى بچہ پيدا ہو گيا برائے مہربانى درج ذيل سوالات كے جوابات ديے جائيں:
1 ـ اس عقد نكاح اور اس سے پيدا ہونے والے بچے كاحكم كيا ہے ؟
2 ـ كيا خاوند كا يہ عمل شرعى مخالفت شمار كى جائيگى يا نہيں ؟
3 ـ اس امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
سركارى طور پر نكاح رجسٹر كرانے سے پہلے ہى حاملہ ہو گئى
سوال: 88182
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر تو اس نكاح ميں نكاح كى شروط يعنى ايجاب و قبول اور عورت كا ولى اور عورت كى رضامندى سب پورى تھيں تو يہ عقد نكاح صحيح ہے اور اس پر نكاح كے سارے احكام مرتب ہونگے، اس طرح وہ عورت اس كى بيوى بن جائيگى، اور خاوند كے ليے وطئ وغيرہ ہر طرح كا استمتاع كرنا مباح ہوگا.
ليكن معاشرے كى عادات و رواج كو مد نظر ركھتے ہوئے اور اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابيوں سے محفوظ رہنے كےليے بيوى سے جماع و وطئ نہ كرنا بہتر ہے، كيونكہ اس سے سوء ظن پيدا ہوگا، خاص كر جب عقد نكاح سركارى طور پر رجسٹر نہ كرايا گيا ہو.
اس عقد نكاح كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والا بچہ شرعى طور پر اپنے باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا، اور نسب ثابت ہوگا كيونكہ يہ نكاح صحيح ہے.
مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (75026 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ليكن اگر اس نكاح ميں شروط پورى نہ تھيں مثلا ولى كے بغير نكاح ہوا ہو تو جمہور فقھاء كرام كے ہاں احاديث كى روشنى ميں يہ نكاح فاسد و باطل ہوگا، ليكن اس سے پيدا شدہ بچہ بھى اپنے باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا.
جس شخص نے بھى اس نكاح كے حرام ہونے كا علم ہونے كے باوجود يہ قدم اٹھايا اور ايسا نكاح كر كے وطئ بھى كر لى تو وہ زانى شمار ہوگا، اور اس پر فاسق ہونے كا حكم لگايا جائيگا، ليكن وہ توبہ كر كے راہ مستقيم اختيار كر لے تو پھر اس سے فسق كا حكم ختم كر ديا جائيگا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جس شخص نے كسى عورت سے فاسد نكاح ميں بيوى كا اعتقاد ركھتے ہوئے عورت سے وطئ كى اور اس سے بچہ پيدا ہو گيا تو سب مسلمانوں كے اتفاق كے مطابق اسے اس كا نسب ديا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 326 ).
دوم:
اس امام كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے، جو كچھ ہوا وہ اس كے دين ميں جرح و قدح كا باعث نہيں اور نہ ہى اس بنا پر اسے فاسق كا حكم ديا جائيگا، جيسا كہ ولى كے بغير بھى ہو تو ظاہر ہے اس نے اس كے جائز ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے ايسا كيا ہے، اس ليے وہ گنہگار نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس سے فاسق ہوگا.
اگرچہ اس امام نے اعلان نكاح اور اسے سركارى طور پر رجسٹر كرانے سے قبل وطئ كرنے ميں جلدى كر كے غلطى كا ارتكاب كيا ہے، كيونكہ اس بنا پر اس نے اپنے اور اپنى بيوى كے بارہ ميں باتيں كرنے كا موقع فراہم كيا ہے، اس طرح وہ لوگوں كى كلام كا موضع بن گيا.
اس طرح كے افراد جو ايسے مقام و مرتبہ پر ہوں جس كى لوگ اقتدا بھى كرتے ہوں مثلا امام اور استاد اور مفتى و قاضى وغيرہ ان سب كو ہر اس كام سے دور رہنا چاہيے جو خلاف مروت ہو اور ان كے متعلق شك و شبہ اور غلط گمان كا دروازہ كھولتا ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ايسے اعمال اور كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جنہيں اللہ پسند فرماتا اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات