ميرے دادا جان فوت ہو چكے ہيں، ميں ان سے بہت محبت كرتى ہوں اور انہيں دعا ميں نہيں بھول سكتى: ميرے دادا جان فوت ہوئے تو ہم انہيں اپنى خوابوں ميں بہت عجيب و غريب حالت اور پريشانى ميں ديكھنے لگيں، كبھى تو ہم انہيں جلا ہوا ديكھتى ہيں، اور كبھى ليٹرين ميں لوٹ پوٹ ہوتے ديكھتى ہيں، اسى طرح كى عجيب خوابوں كا سلسلہ جارى ہے كوشش و بسيار اور تلاش كے بعد پتہ چلا كہ دادے نے ايك يتيم كى زمين ہتھيا كر اپنا گھر تعمير كيا تھا، اور اس يتيم ك واس كا علم بھى نہيں، ليكن دادے نے فوت ہونے سے قبل اس سے معافى طلب كى اور اس يتيم كو تين ہزار ريال بھى ادا كيے ليكن اسے پتہ نہيں چلنے ديا، اس يتيم نے اسے اس كو معاف بھى كر ديا ہے ليكن اسے ابھى تك اس زمين كا علم نہيں.
اور اسى طرح ميرے دادے اور ان كے بھائى ( وہ بھى فوت ہو چكے ہيں ) دونوں نے اپنى بہنوں اور پھوپھى كو ان كى وراثت سے حصہ نہيں ديا، جيسا كہ معروف ہے كہ عورت وارث نہيں بنتى، اس وقت صورت حال يہ ہے كہ ان كى بہنيں تو فوت ہو چكى ہيں، ليكن بہنوں كى بيٹياں موجود ہيں، اور پھوپھى بھى فوت ہو چكى ہے اور اس كا ايك بيٹا ہے، ليكن مسئلہ يہيں ختم نہيں ہو جاتا بلكہ بيٹوں نے دوسروں كے حقوق كا اعتراف كرنے سے ہى انكار كر ديا ہے، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ انہوں نے اپنى زمين لوگوں پر تقسيم ہى نہيں كى، حالانكہ وہ گاؤں بھى نہيں جاتے اور شہر ميں ہى رہائش پذير ہيں اور گھر ويران پڑے ہوئے ہيں اور زمين بنجر ہو رہى ہے كوئى كاشت نہيں كرتا، ہم ان كى پوتياں اپنے اس معاملہ ميں پريشان ہيں وہ ہمارے دادا تھے، اور خوابيں بھى ہميں ہى آتى ہيں، برائے مہربانى مجھے كوئى حل بتائيں اور نصيحت كريں؛ كيونكہ ميرا دادا عذاب ميں مبتلا ہے.
فوت شدہ دادے كو دوسروں كا مال ہڑپ كرنے كى سزا سے كيسے بچايا جا سكتا ہے ؟
سوال: 89609
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سب سے خطرناك بات اور معاملہ يہ ہے كہ لوگوں كا باطل و ناحق مال كھا كر اللہ كے سامنے پيش ہو، يہ اتنا بڑا اور كبيرہ گناہ ہے كہ بندہ تباہ ہو جاتا ہے اور روز قيامت اس كے گناہوں كا بوجھ بہت ثقيل ہو جائيگا، اور يہ اسے آگ ميں لے جانے كا باعث بنے گا اللہ ہم سب كو اس سے محفوظ ركھے.
اور پھر سب سے بڑا ظلم و زيادتى يہ ہے كہ كمزور يتيموں اور عورتوں كا حق كھايا جائے، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو ان كا خاص خيال كرنے كا حكم ديا اور ان كا مال كھانے سے اجتناب كرنے كا تاكيدى حكم ديا ہے، كيونكہ ان كى كمزورى اور ضعف كے باعث ظالموں كے ہاتھ بہت آسانى سے ان كے مال كى طرف پہنچ جاتے ہيں.
لہذا جب سورۃ النساء ميں اللہ سبحانہ و تعال نے ورثاء كے فرضى حصے بيان كيے تو انہيں شرعى تقسيم سے تجاوز كرنے سے منع كيا اور بچنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا اور اس كى حدود سے تجاوز كريگا اللہ تعالى اسے آگ ميں ڈالےگا وہ اس ميں ہميشہ رہينگے اور ان كے ليے ذلت آميز عذاب ہو گا النساء ( 14 ).
اور اسى طرح اللہ سبحانہ و تعالى نے يتميوں كا مال كھانے كو كبيرہ گناہوں ميں شمار كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور يتيموں كو ان كا مال دے دو، اور اچھے كے بدلے برا تبديل مت كرو، اور ان كے مالوں كو اپنے مالوں كے ساتھ ملا كر مت كھا جاؤ، يقينا يہ بہت بڑا گناہ ہے النساء ( 2 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد اس طرح ہے:
يقينا وہ لوگ جو يتيموں كا مال ظلم كے ساتھ ہڑپ كر جاتے ہيں وہ اپنے پيٹ ميں جہنم كى آگ ڈال رہے ہيں، اور وہ جہنم ميں ڈالے جائينگے النساء (10 ).
كسى كى زمين غصب كرنا اور چھيننا كبيرہ گناہ ہے، اس كى سزا بہت شديد ہے، اور جب يہ زمين كسى يتيم كى ہو تو اس كى سزا تو اور بھى زيادہ ہو جاتى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى ايك بالشت زمين ظلم كے ساتھ ہڑپ كى تو اسے روز قيامت ساتوں زمينوں كا طوق پہنايا جائيگا “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3198 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1610 ).
اللہ كى قسم تعجب ہوتا ہے كہ جسے آپ نماز پنجگانہ كا پابند اور نفلى عبادت كرتے ہوئے ديكھيں گے، اور پھر وہ لوگوں كا حقوق كا خيال نہيں كرتا ان كے حقوق سلب كرتا پھرتا ہے، اور اپنے اوپر اتنے گناہوں كا بوجھ لادے پھرتا ہے جس سے روز قيامت پہاڑ بھى عاجز آ جائيں، نہ تو اسے اس كى نمازيں اور نہ ہى روزے اور تلاوت قرآن طمع نفس اور بخل سے روكتى ہے اور لوگوں كا مال ہڑپ كيے جا رہا ہے، اور نہ ہى وہ كسى ضعيف و كمزور عورت يا يتيم پر رحم كھاتا ہے، بلكہ اللہ كے تعالى كے فرض كردہ حقوق بھى غصب كر جاتا ہے.
ليكن اس كے باوجود ہم اللہ سے ان كے ليے نجات كى اميد ركھتے پھرتے ہيں ؟!
ہمارى بہن:
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے كہ آپ اپنے فوت شدہ دادے كو عذاب سے بچانا چاہتى ہيں جس كے متعلق آپ كا گمان ہے كہ وہ عذاب سے دوچار ہے، ليكن ہم تو صرف اس كے مالك ہيں كہ اللہ تعالى نے اپنے كتاب عزيز قرآن مجيد ميں اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث نبوى ميں جو فيصلہ كر ديا ہے وہى بتا سكتے ہيں، كہ يتيموں كا ظلم كے ساتھ مال غصب كرنا اور زمين ہتھيانا اور وراثت ميں ظلم و زيادتى كرتے ہوئے وارث كو حق سے محروم كرنا يہ سب كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اگر آدمى موت سے قبل ان كبرہ گناہوں سے توبہ نہ كرے ( اور اس توبہ ميں حقدار كو اس كا حق واپس كرنا شامل ہے ) تو اسے اللہ سزا ديگا، پھر روز قيامت حقدار لوگ اپنے حقوق كے حساب سے ظالم شخص كى نيكياں حاصل كر يں گے، اور اگر ظالم كى نيكياں ختم ہو گئيں تو مظلوم كے حق كے حساب سے ظالم شخص پر مظلوم كے گناہ ڈال ديے جائينگے، اور پھر اس ظالم كو آگ ميں پھينك ديا جائيگا، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مفلس والى حديث ميں اس كو بيان بھى كيا ہے.
ديكھيں صحيح مسلم حديث نمبر ( 2581 ).
آپ كے دادا كا يتيم كى زمين غصب كرنے سے اس صورت ميں توبہ كرنا كافى نہيں جو آپ نے بيان كى ہے، بلكہ اس پر واجب اور ضرورى تھا كہ وہ اسے حقيقت حال سے آگاہ كرتا اور اسے اس كا پورا حق ديتا.
غزالى رحمہ اللہ لوگوں كے حقوق پر ظلم كرنے سے توبہ كرنے كى شروط بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” اسے چاہيے كہ وہ دوسرے شخص كو اپنے جرم اور اس كے ارتكاب كے متعلق آگاہ كرے، كيونكہ مبہم طور پر حلال كرانا كافى نہيں، ہو سكتا ہے جب وہ اس كے علم ميں آئے اور اس كى زيادتى كى كثرت كا علم ہو تو وہ راضى و خوشى اسے معاف نہ كرے اور اسكے ليے اسے حلال نہ كرے، اس طرح وہ اسے روز قيامت كے ليے ذخيرہ كر لے گا يا تو مظلوم ظالم كى نيكياں حاصل كريگا يا پھر ظالم مظلوم كے گناہ اٹھائيگا ” انتہى
ديكھيں: احياء علوم الدين ( 4 / 47 ).
آپ كے دادا جان تو دار االعمل سے دار الجزاء ميں منتقل ہو چكے ہيں، اس ليے اب آپ دو چيزوں كے علاوہ كسى اور كے مالك نہيں رہے:
پہلى چيز:
اس كے ليے دعا كريں كہ اللہ تعالى اسے معاف كرے.
دوسرى چيز:
حقدار كو اس كے حقوق واپس كريں اور ان سے درخواست كريں كہ وہ آپ كے دادا كو معاف كر ديں، كيونكہ انہيں ان كا حق واپس كرنا ـ اگرچہ اس سے بھى آپ كے داد پورى طرح برى الذمہ نہيں ہوتے ـ ليكن يہ ہے كہ ايسا كرنے سے بلاشك و شبہ اس كے ظلم ميں كمى و تخفيف ہو جائيگى جو اس كے ذمہ تھے، اور اس ليے كہ آپ كہتى ہيں كہ حقدار ميں سے بعض تو فوت ہو چكے ہيں اس ليے واجب اور ضرورى ہے كہ حقوق ان كے ورثاء كو واپس كيے جائيں.
دوم:
رہا آپ كے چچاؤں كا مسئلہ تو ان كے ليے يہى نصيحت ہے كہ وہ جتنى جلدى ہو سكے حقداروں كو ان كے حقوق واپس كر ديں، اگر وہ ايسا نہيں كرتے وہ بھى ان كے حقوق غصب كرنے والوں ميں شامل ہونگے، اور كل قيامت كو رب كے سامنے يہى كبيرہ گناہ لے كر جائينگے جن سے انہوں نے توبہ تك نہيں كى.
اور ان كا يہ كہنا كہ: انہوں نے لوگوں كو ان كى زمين نہيں دى “
يہ تو ان كى جانب سے بہت ہى عجيب بات ہے، انہيں علم ہے كہ يہ زمين نہ تو ان كى ہے اور نہ ہى ان كے والد كى، صحيح اور حق بات تو يہى تھى كہ انہيں يہ كہنا چاہيےتھا:
” ہم لوگوں كى زمين ابھى تك غصب كيے ہوئے اور كيے ركھينگے “
ان اور سب مسلمانوں كے متعلق يہى گمان ہونا چاہيے كہ وہ اپنے اوپر ايسى زيادتى و مشقت نہ كريں جس سے وہ عذاب كے مستحق قرار پائيں، كيونكہ اللہ كا عذاب بہت شديد ہے، اور دنيا كى سارى نعمتيں ملا كر بھى جہنم كى آگ ميں ايك لحظہ كے برابر نہيں ہو سكتيں، اللہ تعالى ہميں سلامتى و عافيت سے نوازے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے چچاؤں كو سچى اور پكى توبہ كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب