پچھلے دنوں ميں نے ايك اسلامى اخبار خريدا تو ميں نے ديكھا كہ اس اخبار نے انعامى مقابلے كا اعلان كر ركھا ہے، اور ميں اس كے جوابات دينے كى استطاعت ركھتا تھا، چنانچہ ميں نے مقابلہ ميں شركت كر لى.
اگر ميں مقابلہ ميں كامياب ہو جاؤں تو كيا ميرے ليے انعام لينا جائز ہے ؟
اخبارات ميں ثقافتى مقابلہ كے انعامات كا حكم
سوال: 89746
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان اس پر متفق ہيں كہ جوا اور قمار بازى شرعا حرام ہے، اور يہ لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال كھانا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).
اہل علم نے اسے كبيرہ گناہ ميں شمار كيا ہے.
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 4 / 309 ) اور الزواجر ( 2 / 328 ).
اس آيت كے سبب نزول كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" جاہليت ميں آدمى اپنے مال اور اہل و عيال پر شرط لگايا كرتے تھے، تو دونوں ميں سے جو بھى اپنے مدمقابل سے جوا ميں شرط جيت جاتا تو وہ اس كا مال اور اہل و عيال لے جاتا تو اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى "
اسے طبرى نے جامع البيان ( 2 / 369 ) ميں روايت كيا ہے.
اور يہاں سے علماء كرام نے مشہور قاعدہ اور اصول وضع كيا جو قمار بازى اور جوے كے معنى كو متعين كرتا ہے علماء كا كہنا ہے:
جوا اور قمار بازى يہ ہے كہ جس ميں داخل ہونے والا اگر نفع حاصل كرے تو حاصل كرنے والا بن جائے، يا پھر نقصان اٹھا كر خسارہ پانے والا بن جائے.
دوسرے معنى ميں يہ كہ: وہ كچھ مال دے كر اس پر شرط ركھے يا تو وہ اس كا خسارہ پائے گا يا پھر مقابلہ ميں اعلان كردہ مبلغ اور رقم كو جيت جائيگا، مثلا لاٹرى والے مقابلے.
اس بنا پر جوا اور قمار بازى اس وقت ہو گى جب اس ميں داخل ہونے والا كچھ رقم ادا كرے جو اس كے خسارہ اٹھانے كا پيش خيمہ بھى ثابت ہو سكتا ہے، اور بعض اوقات اس مبلغ كو كئى نام ديے جاتے ہيں، اور يہ سب نام اس كے حكم جوے اور قمازى كو كچھ تبديل نہيں كر سكتے.
انہوں نے اسے شركت كى فيس، يا انعامى مقابلہ كے كوپن كى قيمت… وغيرہ نام دے ركھے ہيں اور يہ سب جوا ہے.
ليكن اگر مقابلہ ميں شريك ہونے والا كوئى شركت كے بدلے كوئى پيسہ ادا نہيں كرتا تو يہ جوا شمار نہيں ہو گا، اور اس ميں شركت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
دوم:
اب اخبارات اور ميگزين ميں پيش كيے جانے ثقافتى مقابلوں كو ديكھنا باقى ہے كہ آيا اسميں شركت كرنا اور انعام لينا جائز ہے يا نہيں ؟
بعض علماء كرام اس مقابلہ كو بھى حرام قرار ديتے ہيں.
شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اخبارات اور ميگزين كى جانب سے پيش كردہ انعامى مقابلہ ميں شركت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" بلا شك و شبہ اخبارات و ميگزين جو انعام پيش كرتے ہيں اس ميں ان كى اپنى مصلحت ہوتى ہے، وہ يہ كہ اخبار اور ميگزين كى تعداد زيادہ كى جاسكے، اور اسے لوگوں كے درميان رائج كيا جائے تا كہ كمپنى انعام كى مد ميں خرچ كى جانے والى رقم سے بھى كئى گنا زيادہ كمائى كر سكے، حالانكہ ان اخبارات كو دوسرے اخبارات سے كوئى امتياز حاصل نہيں ہوتا.
بلكہ ہو سكتا ہے اس اخبار ميں دوسروں كى بنسبت زيادہ شر و فساد اور پرفتن تصاوير اور غلط قسم كے كالم پائے جاتے ہوں، تو اخبار والے اسے ان انعامات كو پيش كر كے لوگوں كے درميان رائج كرنا چاہتے ہيں.
اس بنا پر اس ميں شركت كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں شركت كرنے سے انہيں حوصلہ ملتا ہے، اور ان كے اخبار كو تقويت حاصل ہوتى ہے "
واللہ تعالى اعلم. انتہى.
ديكھيں: فتاوى البيوع سوال نمبر ( 43 ).
ان انعامى مقابلوں كے متعلق سوال نمبر ( 20993 ) كے جواب ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى نقل كيا جا چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے ان انعامى مقابلوں كو دو شرطوں كے ساتھ جائز قرار ديا ہے:
پہلى شرط:
مقابلہ ميں شركت كرنے والا شخص سامان يا اخبار اپنى ضرورت كى بنا پر خريدے، ليكن اگر اسے اس كى خريدارى كى كوئى ضرورت نہيں، ليكن صرف مقابلہ ميں شريك ہونے كى بنا پر اس كى خريدارى كرتا ہے تو پھر جائز نہيں، كيونكہ اس وقت يہ جوے كى ايك قسم بن جائيگى، وہ اس طرح كہ مقابلہ ميں شركت كرنے والا شخص اس مبلغ اور رقم سے جو اس نے اخبار كى قيمت كى مد ميں ادا كى ہے انعام حاصل كرنے كے احتمال سے شرط لگا رہا ہے.
اس بنا پر اگر تو وہ اخبار پڑھنے كے ليے نہيں، بلكہ كوپن كاٹنے كے ليے خريد رہا ہے، يا پھر ايك سے زائد اخبار خريدتا ہے تو اس مقابلہ ميں شركت كرنا حرام اور جوے كى ايك قسم ہو گى.
دوسرى شرط:
انعامى مقابلہ كى بنا پر سامان يا اخبار كى قيمت ميں اضافہ نہ كيا گيا ہو، اگر اخبار تين ريال كا تھا اور انعامى مقابلے كے بعد اس كى قيمت چار ريال كر دى گئى تو اسميں شريك ہونا حرام ہے، كيونكہ يہ زيادہ رقم مقابلہ كے بدلے ميں ادا كى گئى ہے، تو يہ بھى جوے كى ايك قسم ہے.
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح ( 1162 ).
اس وجہ سے آپ كا اس مقابلہ ميں شريك ہونا جائز ہے كيونكہ آپ نے اخبار انعامى مقابلہ كى بنا پر نہيں خريدا، ليكن ايك شرط ہے كہ اخبار نے مقابلہ كى بنا پر قيمت ميں اضافہ نہ كيا ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات