مادہ لگڑ بگھڑ كھانے كا حكم كيا ہے، اور اس كى دليل كيا ہے ؟
لگڑ بگھڑ كھانے كا حكم
سوال: 89827
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
لگڑ بگھڑ كھانے كے متعلق اہل علم كے دو قول ہيں:
پہلا قول:
احناف كے ہاں حرام ہے.
ان كى دليل ابو ثعلبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر كچلى والا چير پھاڑ كرنے والا وحشى جانور كھانے سے منع فرمايا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1932 ).
اور خزيمۃ بن جزء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے لگڑ بگھڑ كھانے كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا كوئى لگڑ بگھڑ بھى كھاتا ہے ؟! "
اور ميں نے بھيڑيے كے متعلق دريافت كيا تو آپ نے فرمايا:
" كيا كسى بھيڑيا كھانے والے شخص ميں بھى كوئى خير ہے ؟! "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1792 ).
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، اس سے استدلال كرنا صحيح نہيں، ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس حديث كى سند قوى نہيں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى ضعيف ترمذى ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
دوسرا قول:
اكثر علماء كرام كے ہاں يہ مباح اور حلال ہے.
اسے ابن ابى شيبہ اور عبد الرزاق نے على بن ابى طالب اور ابن عباس اور جابر اور ابو ہريرہ اور سعد بن ابى وقاص اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا ہے.
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 5 / 536 ) اور مصنف عبد الرزاق ( 4 / 523 ).
اور احناف ميں سے ابو يوسف اور امام محمد كا قول بھى يہى ہے، اور شافعى اور حنابلہ اورظاہرى بھى اسى قول كے قائل ہيں.
ديكھيں: الام ( 2 / 272 ) المحلى ابن حزم ( 7 / 401 )
انہوں نےدرج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابن ابى عمار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے عرض كيا:
كيا لگڑ بگھڑ شكار ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں.
ميں نے عرض كيا:
ميں اسے كھا لوں ؟
تو انہوں نے فرمايا:
جى ہاں.
ميں نے عرض كيا:
كيا يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا ؟
تو انہوں نے كہا:
جى ہاں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 851 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2494 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ہر كچلى والے وحشى اور چير پھاڑ كرنے والے جانور كى حرمت والى حديث كے انہوں نے دو جواب ديے ہيں:
1 – ان كا كہنا ہے كہ ہر كچلى والے وحشى اور چير پھاڑ كرنے والے جانور كى عمومى حديث سے لگڑ بگھڑ خاص ہے، اس تخصيص كى دليل جابر رضى اللہ تعالى مندرجہ بالا حديث ہے، تو اس طرح لگڑ بگھڑ كے علاہ ہر كچلى والا وحشى اور چير پھاڑ كرنے والا جانور حرام ہو گا.
2 – بعض نے جواب يہ ديا ہے كہ لگڑ بگھڑ كى حرمت كو اصلا يہ حديث شامل ہى نہيں؛ كيونكہ وہ عام وحشى اور چير پھاڑ كرنے والے جانوروں ميں شامل ہى نہيں ہوتا.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى " اعلام الموقعين " ميں كہتے ہيں:
" اسے حرام كيا گيا ہے جو دو اوصاف پر مشتمل ہو: ايك يہ كہ وہ كچلى والا ہو، اور دوسرا وہ طبعى طور پر وحشى درندہ ہو: مثلا شير اور بھيڑيا، اور چيتا اور ٹايگر ليكن لگڑ بگھڑ ميں تو صرف ايك وصف پايا جاتا ہے كہ وہ كچلى والا ہے، ليكن عام وحشى درندوں ميں شامل نہيں، اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ وحشى درندہ ہونا كچلى والا ہونے سے زيادہ خاص ہے.
اور وحشى درندوں كو اس ليے حرام كيا گيا ہے كہ وحشى جانور اور درندے كو كھانے والے ميں بھى وہى درندگى آ سكتى ہے اور اس كى مشابہت بھى، كيونكہ اسے بطور خوراك استعمال كرنے والا اس كےمشابہ ہوتا ہے جس سے خوراك حاصل كر رہا ہے، اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ جو درندگى والى قوت بھيڑيے اور چيتے اور شير ميں پائى جاتى ہے وہ لگڑ بگھڑ ميں نہيں، حتى كہ حرمت ميں ان دونوں كو برابر قرار ديا جائے، اور پھر نہ تو لگڑ بگھڑ كو لغت ميں اور نہ ہى عرف ميں درندہ شمار كيا جاتا ہے" انتہى.
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 2 / 136 ).
يہ دونوں جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں بھى ذكر كيے ہيں.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 568 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى لگڑ بگھڑ كھانے كى اباحت والا قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 185 ).
اور اسى طرح شيخ صالح الفوزان نے بھى اپنى كتاب " الملخص الفقھى " ميں يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 747 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب