ميں نے نيت كى ہے كہ چھ فليٹ پر مشتمل عمارت تعمير كر كے اسے كرايہ پر دوں، تو كيا ميں يہ عمارت اپنے نام كراؤں يا كہ اپنى بيوى كے نام ؟
يہ علم ميں رہے كہ آدھى قيمت ميں ادا كرونگا، اور آدھى قيمت ميرى بيوى ادا كريگى، ميرے ليے اس ميں كوئى مانع نہيں كہ وہ عمارت بيوى كے نام لكھى جائے، اور ميرى بيوى كو بھى اس ميں كوئى اعتراض اور مانع نہيں كہ يہ عمارت ميرے نام كى جائے، ليكن شرعى اعتبار سے كيا چيز افضل ہے ؟
خاوند اور بيوى كا مل كر گھر خريدنا اور ملكيت اپنے نام كروانا
سوال: 89923
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
خاوند كو حق حاصل ہے اور اس كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنى بيوى كو جو چاہے اپنے مال ميں سے ہبہ كر دے، بيوى كو بھى حق حاصل ہے اور اس كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنے مال ميں سے چو چاہے خاوند كو ہبہ كرے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر راضى خوشى دے دو، ہاں اگر وہ اپنى خوشى سے كچھ مہر تمہيں چھوڑ ديں تو اسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ پيو النساء ( 4 ).
اس ليے جب آپ كا دل اپنى بيوى كو اپنا حصہ ہبہ كرنے پر راضى خوشى ہو تو آپ يہ عمارت اپنى بيوى كے نمام رجسٹرى كروا ديں، تو اس طرح يہ اس كى خاص مليكت ہو گى.
اور اگر آپ كى بيوى اپنا حصہ راضى خوشى اپنا حصہ آپ كو ہبہ كرتى ہے تو پھر آپ يہ عمارت اپنے نام رجسٹرى كروا ليں.
اور اگر آپ دونوں ميں سے ہر ايك اپنا حصہ محفوظ ركھنا چاہتے ہے تو پھر آپ دونوں اس ميں شراكت كرتے ہوئے دونوں كے نام رجسٹرى كروا ليں.
مقصد يہ ہے كہ رجسٹرى حقيقت حال كے موافق ہونى چاہيے، يہى بہتر اور اولى و افضل ہے، اور اسى ميں حقوق كى بھى حفاظت ہے، اور اختلاف و نزاع سے بچا جا سكتا ہے.
اور اگر صورت حال اس بات كا تقاضا كرتى ہو كہ اس عمارت كى رجسٹرى صرف ايك شخص كے نام ہى ہو سكتى ہے، تو پھر دوسرے شخص كو چاہيے كہ وہ ايسى دستاويز تيار كر كے اپنے پاس محفوظ ركھے جو اس كے حق كو ثابت كرتى ہو، يعنى كسى حكومتى اسٹام پيپر لكھوا كر اس پرگواہياں بھى ڈالى جائيں.
اللہ تعالى سب كو اپنى پسند اور رضا كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب