سوال: میں جانتا ہوں کہ اہل کتاب کو انکے تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، کیونکہ یہ انکے باطل عقائد کا اقرار ہوگا، لیکن کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں جان پہچان والے لوگوں کو انکے تہواروں میں ایسے پیغام بھیجوں جس میں مبارکبادی نہ ہو، مثلاً ” میں آپکے لئے خیر کی امیدرکھتا ہوں” یا ” میں آپکے لئے بہتر کی امیدرکھتا ہوں” اور نیت انکی ہدایت مانگنے کی ہو؟
کافرکو اُنکے تہوار پر یہ کہنا کہ”میں آپکے لئے خیر یا افضل کی امیدرکھتا ہوں” کیا یہ بھی مبارکبادی شمار ہوگا؟
سوال: 90222
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کفار کو انکے تہواروں میں مبارکباد دینا حرام ہے، جیسا کہ آپ نے خود ہی اسکا تذکرہ کیا ہے، آپ اس کےلئے سوال نمبر (947) اور (81977)کا بھی مطالعہ کریں۔
اور اپنی جان پہچان والے افراد کو انکے تہواروں میں یہ پیغامات بھیجنا کہ “میں آپکے لئے بہتر / خیر کی امیدرکھتا ہوں”ظاہری طور پر یہ بھی مبارکباد ہی ہے۔
لیکن اگر یہی پیغام تہوار سے ہٹ کر کسی اور دن دعوت، اور انکی ہدایت کی امید سے بھیجا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
چنانچہ ابو موسی کہتے ہیں کہ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹی چھینکیں لیتے ، اِس امید سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلئے دعا کردیں، ” يَرْحَمُكُمْ اللَّهُ ” اللہ تم پر رحم کرے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کی دعا کی بجائے انکے کیلئے فرماتے: ” يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ” اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے، اور تمہاری حالت درست فرمائے۔
اسے امام احمد نے (19089) ابو داود نے (5038) ترمذی نے (2739) روایت کیا ہے اورالبانی نے ارواء الغلیل (1277) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
صاحبِ عون المعبود کہتے ہیں کہ: “مقصود یہ ہے کہ انکے لئے رحمت کی دعا نہ کرتے، کیونکہ رحمت مؤمنین کیلئے خاص ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی ہدایت اور ایمان کیلئے توفیق کے ذریعے اصلاحِ احوال کی دعا کرتے”
چنانچہ کافر کیلئے ہدایت کی دعاکرنا، یا ایمان و ہدایت کے ذریعے اصلاح احوال مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی ثابت ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات