اشد ضرورت كى بنا پر بنك سے سودى قرضہ لينے كا حكم كيا ہے؟ مثلا يونيورسٹى كى تعليم جارى ركھنے كے ليے يا پھر كنبہ كے سربراہ كا گاڑى خريدنے كے ليے، يا فيملى كے ليے گھر خريدنے كے ليے، يہ علم ميں رہے كہ قرض لينے والا كوئى ايسا شخص نہيں پاتا جو اسے بغير فائدہ كے قرض دے ؟
انتہائى اور اشد ضرورت كى بنا پر سودى قرض حاصل كرنے كا حكم
سوال: 9054
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سود جہاں بھى پايا جائے اور كسى بھى صورت ميں ہو حرام ہے، صاحب مال پر جس صورت ميں بھى ہو اور جو اس سے فائدہ پر قرض حاصل كرے چاہے قرضہ لينے والا فقير ہو يا مالدار، حرام ہے اور دونوں پر اس كا گناہ ہے، بلكہ ان ميں سے ہر ايك شخص ملعون ہے، اور جس نے بھى لكھ كر يا گواہى دے كر ان كا تعاون كيا وہ بھى سود كى حرمت پر دلالت كرنے والى احاديث كى رو سے ملعون ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ سود كھاتے ہيں وہ اسى طرح كھڑے ہونگے جس طرح شيطان كے چھونے سے خبطى بن جانے والا شخص كھڑا ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ وہ يہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود كى طرح ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت كو حلال كيا اور سود حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كى طرف ہے، اور جو پھر دوبارہ ( حرام كى طرف ) لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہميشہ ہى اس ميں رہيں گے، اللہ تعالى سود كو مٹاتا ہے اور صدقہ كو بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالى كسى ناشكرے اور گنہگار سے محبت نہيں كرتا البقرۃ ( 275 – 276 ).
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” سونا سونے كے ساتھ، اور چاندى چاندى كے ساتھ، اور جو جو كے ساتھ، اور كھجور كھجور كے ساتھ، مثل بمثل اور برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ اور جس نے بھى زيادہ ديا يا زيادہ ليا اس نے سود ليا”
اسے مسلم نے اپنى صحيح ميں نقل كيا ہے.
اور جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ انہوں كہا:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے والے، اور اسے لكھنے والے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں” صحيح مسلم .
اور جو كوئى فقر كے ساتھ كام كرنے سے بھى قاصر اور عاجز ہو اس كے ليے سوال كرنا اور زكاۃ لينا، اور اجتماعى ضمان حاصل كرنا حلال ہو جاتا ہے.
دوم:
مسلمان شخص كے ليے بنك يا كہيں اور سے 5 % يا 10 % يا اس سے زيادہ يا كم فيصد فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں، چاہے وہ فقير ہو يا مالدار ، اس ليے كہ يہ سود ميں شامل اور كبيرہ گناہ ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے اسے مباح اور كام كے ذريعہ حلال كمائى كے ذريعہ اس حرام سے بے پرواہ كر ديا ہے، يا تو وہ اعمال والوں كے ہاں مزدورى كر لے، يا پھر كسى سركارى مباح كام ميں ملازمت كر لے، يا پھر كسى دوسرے كے مال ميں مضاربت پر معلوم منافع پر تجارت كر لے .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 269 )