میرے والد گزشتہ سال فوت ہوئے ہیں وہ اس سال حج کا ارادہ رکھتے تھے، تو کیا ان کی طرف سے کسی اور کو حج کے لیے بھیجا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ لازم ہے کہ کوئی رشتہ دار ہی ان کی طرف سے حج کر سکتا ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ حج میں کی جانے والی قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ قربانی میرے والد صاحب کا نام لے کر ان کی طرف سے کی جائے گی یا پھر جسے حج بدل کے لیے بھیجا جائے اس کے نام سے ہو گی؟
0 / 0
2,25411/06/2022
میت کے بیٹے کے علاوہ کسی اور کو حج بدل کے لیے بھیجا جا سکتا ہے؟
سوال: 9124
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے بعد کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس میت کے وارث کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خود اس کی طرف سے حج کرے یا میت کی طرف سے کسی کو حج کروائے؛ کیونکہ حج کی ادائیگی میت پر قرض ہے، اور اس قرض کی ادائیگی تمام قرضوں سے زیادہ ضروری ہے، تاہم حج کے لیے لازمی نہیں ہے کہ کوئی رشتہ دار ہی حج کرے، نیز حج بدل کی صورت میں حج تمتع یا قران کی قربانی بھی آپ کے فوت شدہ والد کی طرف سے ہو گی، حج بدل کرنے والے کی طرف سے نہیں ہو گی، لیکن اگر حج افراد کیا جا رہا ہے تو پھر اس صورت میں قربانی ویسے ہی واجب نہیں ہے، ہاں اگر حج افراد میں کوئی ایسی غلطی ہو جائے جس سے فدیہ کے طور پر جانور ذبح کرنا پڑے تو یہ الگ بات ہے۔
ماخذ:
الشيخ عبد الكريم الخضير