نوجوانوں کو شادی پرابھارنے والی حدیث میں لفظ استطاعت وارد ہوا ہے تواس کلمہ سے کیا چيز چیز مقصود ہے ؟
شادی کے متعلق حدیث میں استطاعت سے کیا مراد ہے
سوال: 9262
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جوبھی استطاعت رکھتا ہے ہو وہ شادی کرے ، اور جوطاقت نہیں رکھتا اس چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔
وجاء کا معنی فحاشی سے بچاؤ ہے ۔
علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کے ” الباءۃ ” معنی میں دو قول ہیں :
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے نکاح کرنے کی قدرت اورخرچہ مراد ہے ، اوردوسرا قول یہ ہے کہ : اس سے جسمانی طاقت مراد ہے کہ اس میں جماع کرنے کی طاقت ہونی چاہیے ۔
توان دونوں معانی میں سے کوئ ایک دوسرے کے منافی نہیں ، تواس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ جونوجوان بھی جماع کی قدرت اورنکاح کا خرچہ رکھتا ہے وہ شادی کرے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
علماء کرام باءۃ کے معنی میں دو قول ذکر کرتے ہیں ، جوکہ ایک ہی معنی پرلوٹتے ہیں ان میں صحیح یہ ہے کہ : اس سے لغوی معنی یعنی جماع مراد ہے ، تواس طرح حدیث کا معنی یہ ہے ہوگا : تم میں سے جوبھی نکاح کے لوازمات کی قدرت سے جماع کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، اورجومالی طاقت سے عاجزہو وہ روزے رکھے تاکہ اپنی شہوت کنٹرول اور منی کے شرکوختم کرسکے جس طرح کہ ڈھال بچاؤ کرتی ہے ۔ ا ھـ شرح مسلم ( 9 / 173 ) ۔
اورابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
باءۃ کی تفسیر وطئ بھی کی گئ ہے اورمئونہ نکاح بھی ، توپہلی تفسیر منافی نہیں اس لیے کہ اس کا معنی باءۃ کے لوازمات ہیں ۔ دیکھیں : روضۃ المحبین ص ( 219 ) ۔
اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
استطاعت نکاح ہی قدرت مئونہ ہے نہ کہ قدرت وطئ کیونکہ حدیث میں خطاب ہی اسے ہے جووطئ کے فعل پرقادر ہو ، اور اس لیے ہی جویہ استطاعت نہیں رکھتا اسے روزے کا حکم دیا گيا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے بچاؤ ہے ۔ ا ھـ الفتاوی الکبری ( 3 / 134 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب