0 / 0

گمراہ قسم كے لوگوں كى كتابوں كا مطالعہ جارى نہ ركھنے كى نصيحت

سوال: 92781

ميں رافضى شيعہ اور صوفيوں كى كتابوں كا مطالعہ كرنا پسند كرتا ہوں، ميرا علم بہت قليل ہے، اور الحمد للہ ميں نے ان كے شبہات كے متعلق كسى بھى بيسط سبب كى بنا پر اس كے مخالف موقف اپناتا ہوں، وہ يہ كہ ان مجھے علم ہے ان كا دين باطل ہے، اور ان ميں اكثر غالى قسم ہيں، يا پھر عامى و جاہل و مسكين ہيں جو شفقت كے مستحق ہيں، كيونكہ ان كے گمراہ پيروں اور بزرگوں نے انہيں دھوكہ ميں ركھا ہوا ہے، تو كيا آپ كى رائے ميں مجھے مطالعہ جارى ركھنا چاہيے يا كہ ترك كر دوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مسلمان پر اپنے عقيدہ اور ايمان كى حفاظت كرنا، اور اپنى فطرت اور سوچ و فكر كى كو سلامت ركھنا، اور اپنے دين اور دل كو شبہات و فتنوں سے پاك كرنا واجب ہے، كيونكہ دل كمزور ہوتے ہيں اور شبہات اچكنے والى چيز كا درجہ ركھتے ہيں، وہ بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى مزين كردہ اشياء كو اچك ليتے ہيں ليكن حقيقت ميں يہ شبہ بہت كمزور اور واہى ہوتا ہے.

اور پھر بدعتيوں اور گمراہ قسم كے لوگوں يا پھر شرك و خرافات سے بھرى ہوئى يا دوسرے اديان باطلہ كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جن ميں تحريف و تغير پيدا ہو چكا ہے، يا الحادى نظريہ اور نفاق پر مشتمل كتابوں كى ورق گردانى كرنا جائز نہيں.

ان كتب كا مطالعہ صرف وہى شخص كر سكتا ہے جو علمى طور پر اس كى اہليت ركھتا ہو، وہ ان كا مطالعہ كر كے ان كتب كا رد كرنا چاہتا ہو اور اس ميں بيان كردہ فساد كو واضح كرنا چاہے تو اس كا مطالعہ كر لے.

ليكن جس كے پاس شرعى علم نہيں تو وہ ان كتابوں كا مطالعہ كرے گا تو غالبا وہ اس مطالعہ سے حيرت و گمراہى ہى پائيگا، بہت سارے لوگ اس كا شكار بھى ہو چكے ہيں، حتى جو شرعى طالب علم بھى، بات يہيں ختم نہيں ہوتى بلكہ وہ كفر تك كا ارتكاب كر بيٹھے اللہ تعالى محفوظ ركھے.

ان كتابوں كا مطالعہ كرنے والا جس سے دھوكہ كھاتا ہے وہ يہ بات ہے كہ اس كى سوچ ہوتى ہے اس كا دل تو ان شبہات سے زيادى قوى ہے، ليكن زيادہ مطالعہ كرنے كى وجہ سے اچانك اسے محسوس ہوتا ہے كہ اس كے دل ميں تو وہ شبہات گھر كر چكے ہيں جن كا اسے خيال تك بھى نہ تھا.

اس ليے علماء كرام اور سلف صالحين نے اس طرح كى كتابوں كا مطالعہ كرنا حرام قرار ديا حتى كہ ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ نے ايك رسالہ بھى تصنيف كيا جس كا عنوان " تحريم النظر فى كتب الكلام " ركھا.

ذيل ميں ہم چند ايك علماء كرام كى كلام نقل كرتے ہيں جس ميں غير عالم شخص كے ليے يہ كتابيں پڑھنا حرام بيان ہوا ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" حنابلہ كہتے ہيں: اہل بدعت كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كتابوں كا جو حق و باطل پر مشتمل ہوں، اور اس كى روايت كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں عقائد كے ليے نقصان و ضرر ہے.

اور قيلوبى كا قول ہے: غزوات اور رقائق پر مشتمل جھوٹى كتابيں پڑھنا حرام ہيں " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 185 ).

شاطبى رحمہ اللہ نے يہى فتوى ديا ہے:

" عوام كے ليے ابو طالب مكى كى " قوت القلوب " نامى كتاب كا مطالعہ كرنا حلال نہيں، كيونكہ اس ميں صوفيوں كى خرافات پائى جاتى ہيں "

ديكھيں: الافادات و الاشادات ( 44 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں بہتر يہى ہے كہ فرق كيا جائے لہذا جو متمكن نہ ہو اور ايمان ميں رسوخ نہ ركھتا ہو تو اس كے ان كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں،  ليكن رسوخ ركھنے والے كے ليے جائز ہے اور خاص كر جب اسے مخالف كا رد كرنے كى ضرورت ہو " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 525 ).

اور محمد رشيد رضا كہتے ہيں:

" شاگردوں اور عوام كو اس طرح كى كتابيں پڑھنے سے روكنا چاہيے تا كہ وہ ان كے عقائد اور ان كے دينى احكام ميں ان پر كوئى مشكل پيدا نہ كريں تو وہ اس كوے كى طرح ہو جائيں جو مور كى چال چلنے كى كوشش ميں اپنى چال بھى بھول بيٹھا، اور نہ ہى سيكھ سكا " انتہى

ديكھيں: الفتاوى محمد رشيد رضا ( 1 / 137 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" صوفياء كى كتابيں ركھنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كا مطالعہ و مراجعہ كرنا جائز ہے، صرف وہى شخص اس كا مطالعہ كرے جو ان ميں موجود بدعات كا علم ركھتا ہو تا كہ وہ اس كا رد كر سكے تو اس صورت ميں اس كا مطالعہ كرنے كا عظيم فائدہ ہو گا وہ يہ كہ اس بدعت كا علاج اور رد كرنا تا كہ لوگ اس سے محفوظ رہ سكيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب التوحيد و العقيدۃ ( 267 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كا فتوى ہے:

" ہر مكلف مرد و عورت پر بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى كتابيں اور ميگزين اور رسالے پڑھنا حرام ہے جو خرافات نشر كرتے اور جھوٹى مشہورى پر مشتمل اور مكارم اخلاق سے دور كر كے اخلاق رذيلہ كى دعوت ديں.

ليكن اگر كوئى انہيں پڑھ كر اس ميں موجود الحاد و انحراف كا رد كرے اور اس پر چلنے والوں كو صراط مستقيم پر چلنے كى نصيحت كرے اور ان كے اس فعل كو برا ثابت كرے اور لوگوں كو اس راہ سے روكے اور اجتناب كرنے كا كہے تو اس كے جائز ہے " انتہى

ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 19 / 138 ).

اس ليے ـ ہمارے بھائى ـ آپ اپنے آپ كو شر و برائى اور شبہات ميں كيوں ڈالنے كى كوشش كر رہے ہيں، حالانكہ آپ كو اس كى كوئى ضرورت و حاجت نہيں اور آپ اس سے مستغنى ہيں آپ اس غلط عقيدہ اور انحراف سے سليم ہونے پر اللہ كا شكر ادا كريں اور ہدايت و ثابت قدمى كى اس عظيم نعمت پر اللہ كا شكر ادا كرتے ہوئے اس كى حفاظت كريں اور اسے ايسے خطرناك كام ميں پيش نہ كريں كہ يہ ختم ہو جائے.

پھر عمر تو بہت ہى قليل ہے كہ اسے باطل قسم كى كتابوں كے مطالعہ ضائع كيا جائے، بلكہ حق و نافع علم اورخير و بھلائى تو بہت ہے، اگر كوئى شخص اپنى عمر اور وقت كو كسى علمى كتاب اور نفع مند مثلا تفسير يا كتب حديث اور فقہ و رقائق و زہد اور ادب و فكر اور تربيت كى كتابوں كے مطالعہ ميں صرف كرے تو بھى اس كى حاجت پورى نہيں ہوتى !!

تو پھر وہ ان خرافات و گمراہى پر مشتمل كتابوں كے مطالعہ ميں كس طرح مشغول ہو سكتا ہے جسے رافضى شيعہ اور صوفيوں نے لكھا ہے ؟

عزيز بھائى آپ علامہ ابن جوزى رحمہ اللہ كى ايك قيمتى نصيحت سنيں جس ميں انہوں نے نافع علوم كا اہتمام كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے كہا ہے:

" رہا عالم تو ميں اسے يہ نہيں كہتا كہ: علم كو پورا حاصل كرو اور نہ يہ كہتا ہوں كہ: بعض پراقتصار كر لوں.

بلكہ ميں يہ كہتا ہوں: اہم اور ضرورى كو مقدم كرو، كيونكہ عقل و دانش ركھنے والا شخص وہى ہے جو اپنى عمر كى قدر كرے اور اس كے مقتضى ميں عمل كرے، اگرچہ عمر كى مقدار كے مطابق علم حاصل كرنے كى كوئى راہ نہيں، ليكن يہ ہے كہ وہ اغلب پر بنياد ركھے، لہذا اگر وہ وہاں پہنچ گيا تو اس نےہر مرحلہ كے ليے زاد راہ تيار كر ليا اور اگر اس تك پہنچنے سے قبل فوت ہو گيا تو اس كى نيت وہاں ضرور پہنچ جائيگى.

مقصد يہ كہ نفس كو جتنا ممكن ہو سكے علم و عمل كے كمال تك پہنچايا جائے " انتہى مختصرا

ديكھيں: صيد الخاطر ( 54 – 55 ).

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android