ميں چائنہ ميں زير تعليم ہوں، اور جس شہر ميں رہتا ہوں وہ مغربى جانب سے پہاڑوں ميں چھپا ہوا ہے، اور يہاں كے مسلمان باشندے انٹرنيٹ ويب سائٹ سے ليے گئے اوقات كے مطابق افطارى كرتے ہيں، ليكن ميں سورج كى ٹكيا كا خيال ركھتا ہوں، اور جب سورج پہاڑوں كے پيچھے چپ جاتا ہے تو ميں افطار كر كے نماز مغرب ادا كر ليتا ہوں تا كہ افطارى جلد كرنے كى سنت پر عمل ہو سكے، اور يہوديوں كى مخالفت ہو، تو كيا ميرا يہ عمل صحيح ہے ؟
يا كہ ميرے ليے يہ ضرورى ہے كہ ميں كسى بلند جگہ جو پہاڑوں كے مساوى ہو چڑھ كر سورج غائب ہونا ديكھنا ضرورى ہے ؟
ايك چينى باشندہ كا افطارى كے وقت كے متعلق سوال
سوال: 93148
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اوقات نماز وغيرہ كے ان كلينڈروں پر اعتماد كرنا اس وقت تك جائز ہے جب تك ان كا غلط ہونا ثابت نہ ہو جائے، اور نماز فجر كے متعلق تو ان ميں سے اكثر غلط ہى ہوتے ہيں، ـ اگرچہ ہم سب كو غلط نہ كہيں ـ اور بعض اوقات نماز كيلنڈروں ميں عشاء كى نماز كا وقت بھى صحيح نہيں ہوتا ليكن نماز مغرب كے متعلق تو اس ميں غلطى قليل ہى ہوتى ہے؛ كيونكہ عام لوگوں كے ليے بھى اس كا وقت صحيح معلوم كرنا آسان ہوتا ہے، اور اس كے ليے سورج غروب ہونے كا خيال ركھ كر اس كيلنڈر كى غلطى كو صحيح كيا جا سكتا ہے.
بہر حال غروب شمس كى علامت جس سے روزہ دار كا روزہ افطار ہو جاتا ہے، اور اس سے نماز مغرب كا وقت شروع ہوتا ہے يہ ہے كہ:
حقيقتا افق ميں سورج كى ٹكيا غائب ہو جائے، نہ كہ وہ كسى پہاڑ يا عمارت كے پيچھے چھپے.
صحابہ كرام نے غروب كا وقت بيان كرتے ہوئے سورج كو چھپ جانے سے تعبير كيا ہے، اور اس كے متعلق ان كے الفاظ مختلف وارد ہيں:
بعض نے ـ غابت الشمس ” يعنى سورج غائب ہو گيا، كے لفظ بولے ہيں.
اور كوئى صحابى ” توارت بالحجاب ” يعنى پردہ كے پيچھے چھپ گيا كے لفظ بولے ہيں.
اور تيسرا صحابى ” وجبت الشمس ” كے لفظ بولتا ہے، اور يہ سب الفاظ ايك ہى معنى يعنى سورج كى پورى ٹكيا غائب ہونے پر دلالت كرتے ہيں.
آپ كے ليے ضرورى نہيں كہ آپ كسى بلند جگہ يا پہاڑ پر چڑھ كر سورج كى ٹكيا غائب ہوتے ديكھيں، بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ جس جگہ آپ ہيں، وہاں سے سورج كى ٹكيا افق ميں غائب ہو جائے.
ليكن سورج كا صرف پہاڑ كے پيچھے چھپ جانا سورج غائب ہونا شمار نہيں ہو گا، اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس جگہ آپ ہيں وہاں پہاڑوں كى وجہ سے آپ غروب شمس كا وقت معلوم نہيں كر سكتے، تو غروب شمس كو دوسرى علامت كے ذريعہ سے معلوم كيا جا سكتا ہے جو كہ مشرق كى جانب سے اندھيرا آنا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے درج ذيل حديث ميں بيان كيا ہے.
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب اس ( مشرق كى ) طرف سے رات آ جائے، اور اس ( مغرب كى ) طرف سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار كا روزہ افطار ہو گيا “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1954 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1100 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: ” اقبل الليل , ادبر النھار ، اور غربت الشمس ” علماء رحمہم اللہ كہتے ہيں: يہ تينوں ايك دوسرے كے معانى كو شامل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان سب الفاظ كو جمع اس ليے كيا ہے كہ ہو سكتا ہے كوئى كسى وادى وغيرہ ميں ہو اور اسے سورج غروب ہوتا ہوا نظر نہ آئے، تو وہ روشنى ختم ہونے اور اندھيرا ہونے پر اعتماد كرے، واللہ تعالى اعلم “
اور اگر يہ بھى ممكن نہ ہو تو موجودہ كلينڈروں اور جنترى وغيرہ ميں اوقات نماز پر اعتماد كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ كم از كم يہ تو فائدہ ديتى ہے كہ نماز كا وقت شروع ہو چكا ہے، ليكن اگر يہ غلط ثابت ہو جائے تو پھر جنترى وغيرہ پر اعتماد نہيں كيا جائيگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب