رمضان المبارك كے مہينہ ميں ہم فلسطين ميں ايك فوجى پريڈ يا نمائش ميں گئے، جو تقريبا چار گھنٹے پيدل مارچ تھا، اور آخر ميں جب ہم واپس آئے تو ہمارى جان نكلنے والى تھى، كچھ نے تو برداشت نہ كرتے ہوئے روزہ كھول ليا، كيونكہ وہ واضح ہلاك ہونے كے قريب تھے، كيا روزہ كھولنے والے نوجوانوں نے غلطى كى، اور اگر غلطى تھى تو اس كا حل كيا ہے ؟
فوجى نمائش اور مارچ اور ہلاكت كے خدشہ سے روزہ نہ ركھنا
سوال: 93240
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى زمين پر غاصبا قبضہ كرنے والے يہوديوں ميں وہ دن دكھائے جس دن وہ ذليل ورسوا ہوں، اور دين اسلام كو عزت نصيب ہو، اور حق والوں كو حق ملے، اسى طرح ہمارى دعا ہے كہ جو بھى مسلمان شخص اپنى زمين اور دين كا دفاع كرتے ہوئے فوت ہوا اسے شھادت كا رتبہ نصيب فرمائے، اور اللہ تعالى سے ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ وہ مجاہدين اور اسلام كى خدمت كرنے اور كمزور مسلمانوں كى مدد كرنے والوں كو توفيق سے نوازے.
دوم:
شرعى عذر والوں كے ليے رمضان المبارك كا روزہ نہ ركھنے كے جواز ميں كوئى شك و شبہ نہيں، بلكہ بعض اوقات تو يہ واجب ہو جاتا ہے، مثلا دشمن سے دو بدو لڑائى كے وقت، يا پھر لڑائى سے قبل جنگ كى تيارى كے وقت روزہ نہ ركھنا، اس كى دليل صحيح سنت نبويہ سے ملتى ہے جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ( فتح مكہ كے موقع پر ) مكہ كا سفر كيا تو ہم روزے سے تھے، ہم نے ايك جگہ پڑاؤ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
بلاشبہ تم اپنے دشمن كے قريب پہنچ چكے ہو اور روزہ نہ ركھنا تمہارے ليے زيادہ تقويت كا باعث ہے، تو يہ رخصت تھى، ہم ميں سے كچھ نے روزہ ركھا اور كچھ نے روزہ نہ ركھا، پھر ہم نے ايك اور جگہ پڑاؤ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ تم صبح دشمن تك پہنچ جاؤ گے، اور روزہ نہ ركھنا تمہارے ليے تقويت كا باعث ہے، تو تم روزہ نہ ركھو، اور يہ عزيمت تھى، تو ہم نے روزہ نہ ركھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1120 ).
اس كى مزيد تفصيل آپ سوال نمبر ( 12641 ) كے جواب ميں ديكھيں.
اس ليے آپ نے جو تيارى كى تھى وہ يہودى دشمن سے حتمى لڑائى كے تھى تو دشمن كا مقابلہ كرنے والے كے ليے روزہ نہ ركھ كر تقويت حاصل كرنى جائز ہے تا كہ وہ لڑائى اور جنگ ميں قوت حاصل كر سكے.
ليكن اگر آپ نے وہ تيارى اور ٹريننگ كى جسے مؤخر كيا جا سكتا تھا، يا پھر اس كے بعد دشمن سے مقابلہ اور لڑائى نہ تھى تو يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ آپ كے ليے روزہ نہ ركھا جائز ہو، اور دونوں حالتوں كے مابين فرق كرنا ضرورى ہے، اور ان كے مابين خلط ملط كرنا جائز نہيں؛ چنانچہ پہلى حالت جس ميں روزہ نہ ركھنا جائز يا واجب ہے وہ يہ ہے كہ:
اس ميں دشمن سے مقابلہ كا يقين يا ظن غالب ہو.
ليكن دوسرى حالت ميں جس ميں روزہ نہ ركھنا جائز نہيں وہ يہ ہے كہ: وہ فوجى نمائش يا مارچ يا وہ ٹريننگ جو قريبى وقت ميں دشمن كا مقابلہ كرنے كى تيارى نہ ہو، يا پھر جن كا مغرب كے بعد تك مؤخر كرنا ممكن ہو تا كہ فوجى روزہ اور اس كو جمع كر سكے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اسى طرح جسے روزہ چھوڑنے كى ضرورت ہو تا كہ وہ جہاد فى سبيل اللہ ميں دشمن سے لڑائى كے ليے تقويت حاصل كر سكے، تو وہ روزہ نہ ركھے اور بعد ميں اس كى قضاء كر لے، چاہے وہ سفر ميں ہو يا اپنے شہر ميں جب دشمن وہاں آچكا ہو؛ كيونكہ اس ميں مسلمانوں كا دفاع اور اعلاء كلمۃ اللہ ہے.
صحيح مسلم ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ( فتح مكہ كے موقع پر ) مكہ كا سفر كيا تو ہم روزے سے تھے، ہم نے ايك جگہ پڑاؤ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
بلاشبہ تم اپنے دشمن كے قريب پہنچ چكے ہو اور روزہ نہ ركھنا تمہارے ليے زيادہ تقويت كا باعث ہے…… "
( شيخ نے پورى حديث ذكر كى ہے ) تو اس حديث ميں ہے كہ دشمن سے لڑائى كے ليے تقويت كا حصول سفر كے علاوہ ايك مستقل سبب ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر كے علاوہ دشمن سے لڑائى كو روزہ نہ ركھنے كى علت كا حكم ديا ہے، اسى ليے پہلے پڑاؤ والى جگہ پر انہيں روزہ افطار كرنے اور نہ ركھنے كا حكم نہيں ديا "
ماخوذ از: مجالس شہر رمضان ( آٹھويں مجلس ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" اور انہوں نے ناقابل برداشت بھوك اور پياس، اور دشمن سے مقابلہ ميں متوقع يا يقينى كمزورى بھى اس سے ملحق كى ہے، مثلا وہ گھيرے ميں ہو تو غازى كو جب يقينى يا ظن غالب ميں دشمن كا مقابلہ كا علم ہو، اور اسے خدشہ ہو كہ روزہ لڑائى ميں كمزرى كا باعث بن سكتا ہے، اور وہ مسافر بھى نہ ہو تو لڑائى سے قبل اس كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز ہے….
اور بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور جو دشمن سے لڑائى كرے، يا دشمن نے اس كے شہر اور علاقے كا گھراؤ كر ليا ہو، اور روزہ اس كے ليے لڑائى ميں كمزورى اور ضعف كا سبب بنے تو اس كے بغير سفر ہى روزہ چھوڑنا جائز ہے، كيونكہ اسے اس كى ضرورت ہے " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 57 ).
سوم:
اور آپ كے ساتھ جن لوگوں نے روزہ چھوڑا تھا اگر ان كے ظن غالب ميں يہ تھا كہ وہ روزہ ركھ سكتے ہيں، اور پھر انہوں نے مارچ اور نمائش ميں شركت كى اور پھر ان كے ليے روزہ مشقت كا باعث بنا حتى كہ انہيں اپنى جان كا بھى خطرہ ہونے لگا تو ان كے ليے روزہ چھوڑنا اور كھول دينا جائز بلكہ واجب ہوگيا، كہ وہ صرف اتنى چيز كھا اور پى ليں جو ہلاكت كے خدشہ كو ختم كر دے، اور اس كے بعد مغرب تك انہيں كھانے پينے سے اجتناب كرنا چاہيے تھا، اور وہ اس دن كے بدلہ بعد ميں قضاء كرتے ہوئے روزہ ركھيں گے، اور اگر اس كى رخصت نہ ہو تو وہ آئندہ ايسا مت كريں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كہتے ہيں:
اور اگر روزہ دار كو دن ميں روزہ كھولنے كى ضرورت پيش آئے كہ روزہ نہ كھولنے كى صورت ميں اس كى جان كا خطرہ ہو تو وہ ضرورت كے وقت روزہ كھول دے، اور ضرورت كى چيز كھانے كے بعد رات تك دن كا باقى حصہ كھانے پينے سے احتراز كرے، اور رمضان كے بعد وہ اس روزہ كى قضاء ميں روزہ ركھے، كيونكہ اللہ تعالى كا عمومى فرمان ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .
اور ايك دوسرى جگہ فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى كرنے كا ارادہ نہيں ركھتا.
ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 24 / 67 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
پياس كى بنا پر فرضى روزہ توڑنے والے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اس كا حكم يہ ہے كہ جس نے بھى فرضى روزہ ركھا ہو چاہے وہ رمضان ميں ہو يا رمضان كى قضاء كا روزہ يا كفارہ يا فديہ كا روزہ تو اس كے ليے يہ روزہ توڑنا حرام ہے.
ليكن اگر پياس اس حد تك پہنچ جائے كہ اس كى جان كو خطرہ ہو يا ضائع ہونے كا خدشہ ہو تو پھر اس كے ليے روزہ كھولنا جائز ہے، اور اس ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ رمضان كے ايام ہى ہوں جب پياس اس حد تك پہنچ جائے كہ اس كو اپنى جان كو ضرر پہنچنے كا خدشہ لاحق ہو، يا ہلاك ہونے كا، تو اس كے ليے روزہ كھولنا اور توڑنا جائز ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 149 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جسے شديد پياس اور بھوك نڈھال كردے تو وہ روزہ كھول دے اور بعد ميں اس كى قضاء ميں روزہ ركھے "
اور احناف نے اسے دو چيزوں سے مقيد كيا ہے:
پہلى:
اسے اپنى جان كى ہلاكت كا خدشہ يا ظن غالب ہو، نہ كہ صرف وہم، يا پھر اسے عقل ميں كمى يا بعض حواس كھوجانے كا خدشہ ہو، مثلا حاملہ يا دودھ پلانے والى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو، يا پھر اپنے بچے كى ہلاكت كا.
مالكيہ كہتے ہيں: اگر اسے اپنى جان كا خدشہ ہو تو اس كے ليے روزہ ركھنا حرام ہے؛ اور يہ اس ليے كہ جان اور منافع كى حفاظت كرنا فرض ہے.
دوسرى:
كہ وہ اس ميں اپنى جان كو تكليف نہ دے " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 56 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات