ميرے والد صاحب نے بڑھاپے اور بيمارى كى وجہ سے استطاعت نہ ہونے كى بنا پر رمضان المبارك كے روزے نہيں ركھے، اور پھر ان روزوں كى قضاء كيے بغير ہى فوت ہو گئے، تو ہم نے اس كے كفارہ ميں فقراء ميں رقم تقسيم كر دى، ليكن بعد ميں ہم نے سنا كہ كفارہ كفائت نہيں كرتا، بلكہ اس كے بدلے مساكين كو كھانا كھلانا ہوگا، تو كيا ہميں يہ كفارہ دوبارہ دينا ہو گا، اور اس كى مقدار كيا ہے ؟
بڑھاپے يا بيمارى كى بنا پر روزہ سے عاجز شخص كے فديہ كى مقدار
سوال: 93243
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مالكيہ، شافعيہ اور حنابلہ ميں سے جمہور فقہاء كا مسلك يہ ہے كہ روزے كے فديہ ميں رقم دينى كفائت نہيں كرتى، بلكہ اس كے ليے غلہ دينا واجب ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو لوگ اس كى طاقت ركھيں وہ ايك مسكين كو كھانا فديہ ديں البقرۃ ( 184 ).
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يہ بوڑھا مرد اور بوڑھى عورت ہيں جو روزہ ركھنے كى استطاعت نہ ركھتے ہوں تو وہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4505 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" اور جب ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ يہ بيمارى جس كا شكار ہے اس كى بنا پر وہ روزہ نہيں ركھ سكتا، اور اس سے شفايابى كى بھى اميد نہيں تو پھر آپ كے ذمہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو اپنے علاقے كى غذا كا ايك صاع چاہے وہ كھجور ہو يا كچھ اور دينا واجب ہے، گزرے ہوئے اور آئندہ ماہ كے روزں كے بدلے ميں، اور جب آپ كسى مسكين كو اتنے ايام كى تعداد ميں صبح يا شام كا كھانا كھلا ديں جتنے روزے چھوڑے ہيں تو بھى كفائت كر جائيگا، ليكن اس كے بدلے ميں نقد رقم دينى كفائت نہيں كرتى " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 198 ).
تو بوڑھا يا مريض شخص جسے شفايابى كى اميد نہيں وہ ہر روزہ كے عوض ميں ايك مسكين نصف صاع گندم، يا چاول يا كھجور جو اس كے علاقے ميں كھائى جاتى ہو كا كھانا دے، اور اس كى مقدار تقريبا ڈيڑھ كلو بنتى ہے "
ديكھيں: فتاوى رمضان صفحہ نمبر ( 545 ).
اور وہ مہينہ كے آخر ميں اكٹھى پنتاليس كلو گرام چاول وغيرہ بھى دے سكتا ہے، اور اگر وہ مسكينوں كے ليے كھانا پكا كر انہيں كھلائے تو يہ بہتر ہے، كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ ايسا ہى كيا كرتے تھے.
دوم:
اور اگر آپ كسى مفتى كے فتوى كى بنا پر نقدى كى شكل ميں فديہ ادا كر چكے ہيں تو آپ كے ذمہ دوبارہ ايسا كرنا لازم نہيں، اور اگر آپ نے خود ہى ايسا كيا ہے كسى عالم دين كے كہنے پر نہيں تو آپ كو فديہ دوبارہ ادا كرنا ہو گا، احتياط بھى اسى ميں ہے، اور آپ كے والدين كے ساتھ نيكى و احسان بھى يہى ہے، اللہ تعالى انہيں معاف فرمائے اور ان پر رحم كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب