شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا قول ہے:
“اس مسئلہ ميں اصل يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہلال اور مہينہ كے مسمى پر كئى ايك احكام معلق كيے ہيں…
ليكن لوگ اس ميں تنازع كرتے ہيں كہ آيا ہلال اسے كہا جائيگا جو آسمان ميں ظاہر ہوتا ہے، چاہے لوگوں كو اس كا علم نہ ہو ؟ اور اس سے مہينے كا آغاز ہو جائيگا، يا كہ ہلال اسے كہا جائيگا جسے لوگ ديكھيں اور شور كريں، اور مہينہ اسے كہا جائيگا جب لوگوں ميں مشہور ہو جائے.
اس ميں دو قول ہيں: شيخ الاسلام رحمہ اللہ دوسرے قول كى طرف مائل ہيں، يعنى لوگ چاند ديكھ كر شور كريں، اور اسى اساس پر شيخ الاسلام اس طرف مائل ہيں كہ اگر كوئى شخص اكيلا ہى چاند ديكھے تو وہ روزہ لوگوں كے ساتھ ہى ركھےگا؛ كيونكہ ہلال اسى دن ہوگا جب لوگ اسے ديكھيں گے.
اور ميرا دل بھى اسى پر مطئمن ہے كہ روزہ اسى دن ركھا جائيگا جب لوگ ركھيں گے، ليكن يہاں ميرے ذہن ميں ايك اشكال پيدا ہو رہا ہے كہ ہلال اور مہينے كا مدلول كيا ہے، جو يہ كہتا ہے اسكى دليل كيا ہے ؟
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان ہے:
” جب تم چاند ديكھو ”
اس بنا پر توم يرے نزديك يہ ساقط ہو جاتا ہے كہ ہلال اسے كہا جائيگا جسے لوگ ديكھيں، اور يہ ثابت ہوتا ہے كہ ہلال آسمان ميں چاند كو ہى كہا جائيگا، تو كيا اس پر مبنى حكم ” جو شخص اكيلا چاند ديكھے تو وہ لوگوں كے ساتھ ہى روزہ ركھے ” ساقط ہو جائيگا ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كى قول \” ہلال اسے كہا جاتا ہے جسے لوگ ديكھيں اور ديكھائيں
سوال: 93528
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ قول كہ: ہلال وہ ہے جو لوگوں ميں شور ہو كر ديكھا جائے، اور مہينہ وہ ہے جو لوگوں ميں مشہور ہو جائے، يہ قول كئى ايك دلائل پر مبنى ہے:
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے الھلال اور الشھر كے مسمى پر كئى ايك احكام معلق كيے ہيں، مثلا روزہ اور عيد اور قربانى وغيرہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ سے چاند كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ يہ لوگوں ( كى عبادت ) كے وقتوں اور حج كے موسم كے ليے ہے، ( احرام كى حالت ميں ) اور گھر وں كے پيچھے سے تمہارا آنا كچھ نيكى نہيں، بلكہ نيكى والا وہ ہے جو متقى ہو، اور گھروں ميں تو دروازوں ميں سے آيا كرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تا كہ تم كامياب ہو جاؤ
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان كيا ہے كہ چاند لوگوں كى عبادت اور حج كے موسم كے اوقات كے ليے ہيں.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! تم پر روزے ركھنا فرض كيا گيا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كيے گئے تھے، تا كہ تم تقوى اختيار كرو
گنتى كے چند ہى دن ہيں ليكن تم ميں سے جو شخص بيمار ہو يا سفر ميں ہو تو وہ اور دنوں ميں گنتى پورى كرے، اس كى طاقت ركھنے والے فديہ ميں ايك مسكين كو كھانا ديں، پھر جو شخص نيكى ميں سبقت كرے وہ اسى كے ليے بہتر ہے، ليكن تمہارے حق ميں بہتر كام روزے ركھنا ہى ہے اگر تم علم ركھتے ہو
اور پھر ہلال الاستھلال سے ماخوذ ہے، جس كا معنى آواز بلند كرنا ہے، اور شہر الاشتہار سے ماخوذ ہے، اس ليے جس كى لوگوں كى نے آواز بلند نہيں كى، اور نہ ہى وہ لوگوں ميں مشہور ہوا نہ تو وہ ہلال كہلائيگا، اور نہ ہى ہى مہينہ.
دوم:
ذوالحجہ كى رؤيت ہلال پر قياس، شيخ رحمہ اللہ كا قول ہے:
ميرے علم كے مطابق تو يہ كسى نے نہيں كہا كہ جو شخص نے چاند ديكھا ہو تو اكيلا ہى وقوف عرفہ كر لے باقى حاجى نہ كريں، اور وہ اكيلا قربانى كرے، اور جمرات كو رمى بھى ا كيلا ہى، اور صرف اكيلا ہى حلال ہو جائے.
يہ بتائيں كہ رمضان اور ذوالحجہ كے چاند ميں كيا فرق ہيں؟ رمضان المبارك ميں وہ اپنى رؤيت پر عمل كركے جماعت كى مخالفت كيوں كرتا ہے، ليكن وہ ذوالحجہ ميں اپنى رؤيت پر عمل كيوں نہيں كرتا ؟
سوم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ ركھتے ہو، اور عيد اس روز ہے جس روز تم عيد مناتے ہو، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن تم قربانى كرتے ہو ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 697 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 244 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
جديث كا معنى يہ ہے كہ رمضان اور عيد الفطر اور عيد الاضحى مسلمانوں كى جماعت كے ساتھ ہوگى، اس ميں كوئى شخص بھى انفرادى طور پر نہيں كر سكتا، اسى ليے امام احمد رحمہ اللہ كى ايك روايت ہے كہ:
” امام اور مسلمانوں كى جماعت كے ساتھ روزہ ركھے، كيونكہ اللہ جماعت كے ساتھ ہے ”
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے جو قول اختيار كيا ہے اس كے يہ دلائل قوى ہيں.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 25 / 109 – 118 ).
دوم:
بلاشك و شبہ يہ مسئلہ اجتھادى مسائل ميں شامل ہوتا ہے، جن ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے، مسلمان كو چاہيے كہ وہ مسائل كى تحقيق كرے اور اس ميں سے شرعى دلائل كے مطابق راجح معلوم كرے، اور جو اسے راجح معلوم ہو اس پرعمل كر لے، جيسا كہ بعض سلف كا قول ہے: جس نے جو سنا اور اسى پر انتہاء كى تو اس نے اچھا كيا.
اس ليے اگر مندرجہ بالا دلائل پر دل مطمئن نہ ہو، اور آپ ديكھيں كہ انفرادى رؤيت ہلال كے مطابق رمضان كا روزہ ركھنے كے وجوب كے قول كو صحيح سمجھيں تو آپ پر اپنے نزديك راجح مسئلہ پر عمل كرنا لازم ہوگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسى شخص كو رؤيت ہلال كے ساتھ مہينہ شروع ہونے كا يقين ہو جائے اور وہ سركارى محكمہ كو اطلاق بھى نہ دے سكتا ہو تو كيا اس پر روزہ ركھنا فرض ہوگا يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ علماء تو كہتے ہيں كہ اس پر روزہ ركھنا لازم نہيں، كيونكہ ہلال تو وہ ہے جب لوگ چاند ديكھ كر شور كريں، اور لوگوں ميں مشہور ہو جائے.
اور كچھ علماء كرام كہتے ہيں كہ: اس پر روزہ ركھنا لازم ہے كيونكہ ہلال وہ ہے جو غروب شمس كے بعد ديكھا گيا ہو، چاہے وہ لوگوں كے مابين مشہور ہوا ہو يا نہ.
مجھے تو يہى لگتا ہے كہ جس نے چاند ديكھا اور رؤيت پر يقين ہو اور وہ ايسى جگہ ہو جہاں كوئى اور شخص نہ ہو، يا پھر چاند ديكھنے ميں اس كے ساتھ كوئى دوسرا شخص شريك نہ ہو تو اسے روزہ ركھنا لازم ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
تم ميں سے جو كوئى بھى رمضان المبارك كا مہينہ پا لے تو وہ رمضان كے روزے ركھے
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب تم چاند ديكھو تو روزہ ركھو “
ليكن اگر وہ شہر ميں ہے اور اس نے سركارى محكمہ ميں جا كر گواہى دى اور اس كى گواہى رد كر دى گئى تو پھر اس حالت ميں وہ خفيہ طور پر روزہ ركھےگا، تا كہ لوگوں كى مخالفت اعلانيہ طور پر نہ ہو ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 74 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب