ميں اعتكاف كرنا چاہتا ہوں، ليكن ان ايام ميں ميرا ڈاكٹر كے ساتھ ايك اہم وعدہ بھى ہے، تو كيا دوران اعتكاف ميں ڈاكٹر كے پاس جا سكتا ہوں، يا كہ مجھ پر اعتكاف واجب نہيں ؟
اعتكاف كا ارادہ ہے ليكن ان ايام ميں ڈاكٹر كے پاس بھى جانا ہے
سوال: 93546
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسجد ميں التزام كے ساتھ رہنے اور ٹھرنے كو اعتكاف كہا جاتا ہے.
اور اعتكاف كرنا سنت مستحبہ ہے، خاص كر رمضان المبارك كے آخرى عشرہ كا اعتكاف سنت ہے، اور اعتكاف اس وقت تك واجب نہيں ہوتا جب مسلمان شخص نذر كے ذريعہ اسے اپنے اوپر واجب نہ كر لے، ليكن بغير نذر واجب نہيں.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 48999 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اصل تو يہى ہے كہ اعتكاف كرنے والا شخص بغير كسى ضرورت كے مسجد سے باہر نہيں جا سكتا، اور ضرورت بھى ايسى جو مسجد ميں پورى نہ ہو سكتى ہو، مثلا وضوء، غسل، قضائے حاجت.
اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى يہ حديث ہے، وہ بيان كرتى ہيں كہ:
” جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اعتكاف كرتے تو گھر ميں انسانى ضرورت كے علاوہ داخل نہ ہوتے تھے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 297 ).
اور اگر آپ كو ڈاكٹر كے پاس جانے كى ضرورت ہے، اور اسے رمضان كے بعد تك مؤخر نہيں كيا جا سكتا تو ظاہر يہى ہوتا ہے، ڈاكٹر كے پاس جانے كے ليے مسجد سے نكلنے ميں كوئى حرج نہيں، آپ فارغ ہو كر فورا مسجد ميں واپس آ جائيں.
امام نووى رحمہ اللہ نے ” المجموع ” ميں بيان كيا ہے كہ:
” ايسا مريض جسے بيمارى كى وجہ سے بستر اور خادم، اور بار بار ڈاكٹر كے پاس جانے كى ضرورت ہو، اور اس بنا پر ا سكا مسجد ميں رہنا قابل مشقت ہو تو اس كے ليے مسجد سے نكلنا مباح ہے ” انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 545 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جو ڈاكٹر سے مشورہ كرنے كا محتاج ہو وہ نكل سكتا ہے، وگرنہ وہ مسجد ميں ہى رہے ” انتہى.
ديكھيں: جلسات رمضانيۃ ( سال 1411 ھـ ) ساتويں مجلس ( 144 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات