اسلام پرکاربند نہ رہنے والے خاندان کے بارہ میں دین اسلام کا التزام کرنے والی عورت کیا کرے ؟ اورسنت نبویہ کا التزام کس طرح کرے ؟
کیا ایسی بہن کے لیے جائز ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے خاندانی تعلقات منقطع کردے اورعلیحدگی کی زندگی گزارے ؟
اس لیے کہ اس جگہ شروبرائ اورغیبت و فتنہ اور اللہ تعالی کی معصیت کرنے پرابھارا جاتا ہے ، توکیا کوئ ایسا علاج و دعا ہے جو اس جیسے موقف کے لیے فائدہ مند ہو ؟
گنہگاروں سے معاملات کی کیفیت
سوال: 9380
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم اس مسلمان بہن کویہ کہیں گے کہ اللہ تعالی آپ کو اسلام پرکاربندرہنے پرجزاۓ خیر عطافرماۓ اورآپ کوثابت قدمی نصیب کرے اوراس پرآپ کے تعاون میں آسانی فرماۓ ۔ آمین یارب العالمین ۔
اورسوال کے بارہ میں ہم کہیں گے کہ آپ کے لیےمندرجہ ذیل اشیاء پرعمل کرنا ضروری ہے :
پہلی :
ان کی تکالیف پر صبر کریں اس لیے کہ دین کا التزام کرنا کوئ آسان کام نہیں اورپھریہ انبیاء کا راستہ ہے ، اس راستہ میں مسلمان کولازمی اورضروری صعوبتوں اورمشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے ، جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ نے اپنی صحیح مسلم میں حدیث بیان فرمائ ہے :
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جنت ناپسندیدہ چيزوں سے گھیری گئ ہے ، اورجہنم کی آگ شہوات سے گھری ہوئ ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2823 ) ۔
اورپھر انبیاء علیھم السلام نے بھی اس راہ میں اپنی قوموں سے تکلیفیں اٹھائيں بلکہ انہوں نے تو اقرباء و قریبی رشتہ داروں سے بھی بہت سخت تکلیفیں برداشت کیں تواللہ تعالی نےان کے صبر کی بنا پر انجام اچھا کردیا ۔
دوسری :
مسلمان بہن پر ضروری ہے کہ وہ اپنے خاندان والوں کو حکمت اورموعظہ حسنہ کے ساتھ نصیحت کی کوشش کرنے اورناامید نہ ہو ، اور ان کے سامنے اخلاق حسنہ اوراچھے کاموں اوراچھی بات کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے اوران کی طرف مدد وتعاون کا ہاتھ بڑھاۓ ، حتی کے ان کے ساتھ بھی جو ان میں سے سب سے زيادہ تکلیف وتنگی دیتے ہیں ان شاء اللہ یہ ان کے لیے بہت اثرانداز ہوگا اوردعوت الی اللہ کے وسائل میں یہی سب سے کامیاب ترین وسیلہ ہے ۔
تیسری :
آپ اس التزام میں اس کا مدد گارو معاون حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ اس طرح کہ جواس سے سب سے زيادہ محبت کرتا ہواس کی طرف مائل ہوں اوروہ دوسروں سے زيادہ قبول کرنے والاہوگا ۔
چوتھی :
آپ سب سے قیمتی اوربڑے اسحلہ دعا کا سہارا لے کراس سے مسلح ہوں اوران کے لیے دعاکریں کہ اللہ تعالی انہیں ھدایت نصیب فرماۓ اوراللہ تعالی ان کے دلوں کو دین پرکاربند رہنے کے نورمنور کردے ، اوریہ دعاآپ سجدوں میں اوررات کے آخری حصہ میں سحری کے وقت اوردعاکے دوسرے اوقات میں کثرت سے کیا کریں اورقبولیت سے ناامید نہ ہوں ۔
پانچویں :
آپ یہ علم میں رکھیں کہ ہرعلیحدگی فائدہ مند نہیں ہوتی ، بلکہ بعض نے ( اللہ انہیں ھدایت دے )علحیدگی کی توان کے خاندان والوں کے لیے توزيادہ فقسق وفجور کا باعث بن گئ اوروہ دین اوربھی زيادہ دور ہوگۓ ۔
اورپھرعلیحدگی اختیارکرنے والے کے لیے علیحدگی سینہ کی تنگی اورگھٹن اورعدم برداشت کا سبب بھی بن جاتی ہے ، اس لیے ہمارے خیال میں آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ سوال کرنے والی بہن صبر کرے اوراپنے خاندان سے ایسا میل جول رکھے جواس کے دین اورایمان پراثر انداز نہ ہو ۔
اورگھر کے اندر رہتے ہوۓ علیحدگی ہوتو وہ افضل ہے اس لیے کہ عورت کا اپنے گھر والوں کے پاس کے نکل جانا اس کے خلاف زیادہ بات چیت کا باعث بنے گا ، اوروہ لوگ اسے للچائ ہوئ نظروں سے دیکھیں گے اس لیے کہ اپنا خیال رکھنے اوربچاؤ کرنے والوں سے دور اورعلیحدہ ہوچکی ہے ۔
اورپھرآپ کا گھرمیں اورخاندان والوں کے ساتھ رہنا آپ کے گھروالوں کے لیے زيادہ نفع مندہوگا ، اس لیے کہ بہت سی معاصی و گناہ کی گھر والے اپنی اس اولاد کی خاطر جسے اللہ تعالی نےھدایت دی ہے جرات نہيں کريں گے ، اورجب وہ ان سے علیحدگی اختیارکرلیں تو پھر گھروالوں کے لیے فضاکھل جاۓ گی جوان کے لیے معاصی و گناہ کرنے میں مدد فراہم کرے گی ۔
تواس لیے دعوت دینے والے کے لیےضروری ہے کہ وہ حکیم ہو اورحکمت سےکام لے اوراسے علیحدگی کے نتیجے میں پیش آنے والی مصلحتوں اورفساد کومد نظر رکھتے ہوۓ اس پر عمل کرنا چاہیۓ لھذا اسے ایک بڑے فساد کے بپا ہونے پر ایک چھوٹی سی مصلحت کومقدم نہیں کرنا چاہیۓ ، اورپھر مفاسد کوروکنا مصلحت حاصل کرنے سے اولی اوربہتر ہے ۔
چھٹی :
اس جیسے حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بہتر اورمعین دعا کوئ نہیں کہ انہوں نے اپنی قوم کی ھدایت اورمغفرت کی دعا فرمائ تھی ۔
ا – عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنھما بیان کرتےہیں ، گویا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ انبیاء میں سے ایک نبی کواس کی قوم نےمار مار کرلہولہان کردیا اوروہ اپنے خون کوصاف کرتے ہوۓ بھی یہ دعا کررہا تھا ، اے اللہ میری قوم کومعاف کردے اس لیے کہ انہیں تو علم ہی نہيں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3290 ) اورصحیح مسلم حدیث نمبر ( 1792 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
جس نبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ پہلے انبیاء میں سے تھا اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی کچھ میدان احد میں ہوا ۔ شرح مسلم للنووی ( 12 / 150 ) ۔
ب – ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی رضي اللہ تعالی عنہ اوران کے دوست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اورکہنے لگے :
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوس قبلیہ نافرمان ہے اوراس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا ہے آپ ان پر بد دعا کریں ، توکہا کہ گیا کہ اب دوس قبیلہ تباہ ہوگیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوۓ فرمانے لگے :
اے اللہ دوس قبیلہ ھدایت نصیب فرما اورانہیں یہاں لا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2779 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2524 ) ۔
ج – ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں اپنی مشرک والدہ کواسلام کی دعوت دیتا تھا ، اورایک دن میں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں نازیباالفاظ کہے جومجھے اچھے نہ لگے تومیں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی والدہ کواسلام کی دعوت دیتا رہا ہوں اوروہ انکار کرتی رہیں اورآج بھی میں نے دعوت اسلام پیش کی تو انہوں نے آپ کے بارہ میں کچھ نازيبا الفاظ استعمال کیے جو مجھے ناپسند لگے لھذا آپ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ام ابوھریرہ کوھدایت سے نوازے ۔
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوۓ فرمانے لگے :
اے اللہ ابوھریرہ کی والدہ کوھدایت نصیب فرما ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے خوشی خوشی وہاں سے نکلا اورجب میں دروازہ کے پاس پہنچا تو رہ بند تھا ، اورمیری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو کہنے لگیں اے ابوھریرہ ذرا ٹھر جاؤ ۔
میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی ، ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا اوراپنا لباس وغیرہ پہنا اورجلدی میں دوپٹا لیے بغیر دروازہ کھول کرکہنے لگیں ، اے ابوھریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ معبود برحق نہيں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کےبندے اوراس کے سچے رسول ہیں ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صل اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا توخوشی سے رورہا تھا ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےکہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائيں اللہ تعالی نے آپ کی دعا کوشرف قبولیت بخشتے ہوۓ ابوھریرہ کی والدہ کوھدایت نصیب فرمادی ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوراچھی باتیں کہیں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2491 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب