کیا لفظ جلالہ ( اللہ ) یا اللہ تعالی کے اسماء میں سے کوئ ایک اسم کا ورد کرنا ذکر میں شامل ہے اور اس کا ورد کرنا حرام ہے ؟
ہميں یہ تو علم ہے کہ ” استغفراللہ ” سبحان اللہ ” الحمد للہ ” یہ تو جائز ہے
صرف اللہ تعالی کے نام ” اللہ ” یا صرف ” ہو ” کا ورد کرنا صوفیوں کی بدعات میں سے ہے
سوال: 9389
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ صرف اکیلے لفظ جلالہ ” اللہ ” کا ذکر کرنا بدعت ہے ، اور اس سے بڑھ کر صرف ” ہو ہو ” کا ورد کرنا بڑی بدعت ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی بیا ن کر تے ہیں کہ :
اللہ تعالی کا اسم مفرد چاہے وہ ظاہر وہ یا ضمیر ( یعنی اللہ اللہ اللہ اور یا پھر ہو ہو ہو ہو کا ورد کرنا ) یہ کلام تام نہیں اور نہ ہی کوئ جملہ مفیدہ ہے ، اور نہ ہی اس سے کفر اور ایمان کا تعلق اور نہ ہی امر و نہی کا ، اور نہ ہی امت کے اسلاف میں سے کسی ایک سے بھی یہ ذکر ثابت ہے ، اور پھر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشروع نہیں کیا ۔
اور یہ بنفسہ دل کو کوئ مفید معرفت بھی نہیں دیتا اور نہ ہی نفع مند حالت مہیا کرتا ہے ، بلکہ یہ مطلق تصور فراہم کرتا ہے جس پر نہ تو نفی اور نہ ہی اثبات حکم لگایا جاسکتا ہے ، تو اگر اس کے ساتھ معرفت قلب اور اس کی حالت نافع جوکہ بنفسہ فائدہ مند ہو شامل نہ ہو تو اس میں کوئ فائدہ نہیں ، اور شریعت اسلامیہ وہ اذکار مشروع کۓ ہیں جن کا بنفسہ کوئ فائدہ ہے نہ کہ وہ جس سے کوئ فائد حاصل نہ ہو ۔
اور وہ لوگ جو کہ اس ذ کر پر مواظبت کرنے والے ہیں وہ کئ قسم کے الحاد کا شکار ہوچکے ہیں ، جس کا ذکر اس جگہ کے علاوہ دوسری جگہ پر کیا گیا ہے ۔
اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ : مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ مجھے نفی اور اثبات کے مابین موت نہ آجاۓ ! ، یہ ایک ایک ایسی حالت ہے جس میں اس قول کے کہنے والے کی بات پر عمل نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ اس میں ایسی غلطی ہے جس کو چھپایا نہیں جاسکتا ، تو اگر بند ے کو ایسی حالت میں موت آجاۓ تو وہ اسی حالت پر مرے گا جس کا اس نے قصد کیا اور جو نیت کی تھی کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ میت کو لاالہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہۓ ، اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس کی آخری کلام لاالہ الا اللہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا ) اور اگر جوذ کر کیا گیا ہے وہ محذور ہوتا تو میت کو اس خوف سے کلمہ کی تلقین نہ کی جاۓ کہ کہیں وہ اسی اثناء میں فوت ہی نہ ہوجاۓ اس کے بغیر موت غیر محمود ہے ، تو اسے تلقین کے لۓ کوئ اسم مفرد ہی اختیار کر لیا جاتا ۔
اور پھر اسم ضمیر کے ساتھ ذکر کرنے کا تو سنت سے کوئ دور کا بھی واسطہ نہیں ( یعنی ہو ہو ہو ہو کرنا ) بلکہ یہ بدعت اور شیطان کی گمراہی کے زیادہ قریب ہے ، کیونکہ جو یہ کہتا ہے “یا ہو ” یا ہو ” یا ہو ” اور یا پھر صرف ” ہو ” ہو ” ہو ” وغیرہ کہتا ہے تو یہ ضمیر صرف دل کے تصور کی طرف لوٹتی ہے اور دل کبھی ھدایت اور کبھی گمراہی کا شکار ہوتا ہے ۔۔۔
پھر یہ بات زیادہ کی جاتی ہے کہ بعض مشائخ نے اللہ ” اللہ ” کہنے والے کے لۓ یہ دلیل دی ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
کہہ دیجۓ کہ اللہ ہی نازل فرمایا ہے پھر انہیں چھوڑ دیں تو اس سے ان کا یہ گمان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اسم مفرد کہنے کا حکم دیا ، تو یہ بات باتفاق اہل علم صحیح نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کہہ دیجۓ کہ اللہ ہی کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی وہ ہے جس نے ہی اس کتاب کو نازل فرما یا ہے جو موسی علیہ السلام لے کر آۓ تھے ، اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان ہے کا جواب واقع ہو رہا ہے :
کہہ دیجۓ کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جو موسی علیہ السلام لاۓ تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لۓ وہ ھدایت ہے جسے تم نے ان متفرق اوراق میں چھوڑ رکھا ہے جن کوظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائيں گئي ہیں جن کو نہ تو تم اور نہ ہی تمہارے آباء و اجداد کہہ دیجۓ کہ اللہ تعالی ہی نے نازل فرمایا ہے
یعنی اللہ تعالی ہی نے وہ کتاب نازل فرمائ ہے جسے موسی علیہ السلام لے کر آۓ تھے ، تو اس فرمان میں اس شخص کے قول کا رد ہے جو یہ کہتا ہے ” اللہ تعالی نے کسی بشر پر کوئ چیز نہیں اتاری ” تو اللہ تعالی نے فرمایا ” کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جو موسی علیہ السلام لاۓ تھے ” پھر اس کے بعد فرمایا : اللہ تعالی نے ہی نازل فرمائ ہے پھر ان جھوٹے لوگوں کو اپنی خرافات میں کھیلتے رہنے دیجۓ ۔
جو مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے اس یہی واضح ہو تا ہے جس کا ذکر سیبویہ اورنحو کے دوسر ے آئمہ نے کا ہے کہ : عرب کلام کو قول میں نقل کرتے ہیں نہ کہ قول کو ، تو قول اس وقت تک نقل ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ کلام تام یا پھر جملہ اسمیہ اوریا جملہ فعلیہ نہ ہو ، اور اسی لۓ ” ان ” جب قول کے بعد آجاۓ تو اسے کسرہ دیتے ہیں ۔
تو قول اسم کے ساتھ نقل نہیں کیا جاسکتا اور اللہ تعالی نے کسی کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اسم مفرد کا ذکر کرے ، اور نہ ہی مسلمانوں کے لۓ اسم مفرد مجرد مشروع کیا ہے ، اوراس پر اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ اسم مجرد ایما ن کا فائدہ نہیں دیتا ، اور نہ ہی اس کا کسی عبادت میں اور تخاطب میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ( 10 / 226 – 229 )
اور شیخ الاسلام کا یہ بھی قول ہے :
اور اللہ تعالی کا اسم مفرد ظاہر مثلا ” اللہ ” اللہ ” یا ضمیر مثلا ” ہو ، ہو ” نہ تو یہ کتاب اللہ اور نہ ہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مشروع ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک سلف صالح سے ماثور ہے ، اور نہ ہی کسی ایسے شخص سے جس کی اقتدا کی جاۓ ، بلکہ یہ ایک ایسی گمراہ قوم سے نکلا ہے جو کہ بہت ہی متاخرین میں سے ہے ۔
اور ہو سکتا ہے کہ اس مسئلہ میں انہوں نے اس شیخ کی پیروی کی ہو جو کہ اس میں مغلوب ہو چکا ہے جس طرح کہ شبلی کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتا تھا : اللہ ” اللہ ” تو اسے کہا گيا تو لا الہ الا اللہ کیوں نہیں کہتا ؟ تو اس نے جواب میں کہا مجھے ڈر ہے کہ میں نفی اور اثبات کے درمیان نہ مر جاؤں ! ۔
تویہ شبلی کی گمرہیوں میں سے ایک ہے جو کہ اس کے صدق ایمان اور قوت وجد اوراس کے حال کے غلبہ سے معاف ہو جاۓ گی ، اور بعض اوقات ا س جنون کا دورہ پڑتا تھا تو اسے شفاخانہ لے جایا جاتا ، اور وہ اپنی داڑھی کو منڈاتا تھا ، اور اسی طرح اس کی کچھ ایسی چیزیں ہیں جن میں اس کی اقتدا نہیں کی جاسکتی اگرچہ وہ ان میں معذور تھا یا کہ ماجور ، کیونکہ اگر بندہ لا الہ الا اللہ کہنے کا ارادہ اور اسے یہ مکمل کرنے سے قبل ہی موت آدبوچے تو اسے یہ کوئ نقصان نہیں دے گا کیونکہ اعمال کا مدار نیات پر ہے بلکہ جو اس کی نیت تھی اسے لکھ دیا جاۓ گا ۔
اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض نے اس ميں غلو سے کام لیا اور اسم مفر د خاص لوگوں کے لۓ اور پورا کلمہ عام لوگوں کے لۓ مقرر کر دیا ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض نے یہ کہا کہ لاالہ الا اللہ مومنوں کے لۓ اور ” اللہ ” عارفوں کے لۓ ، اور ” ہو ” محققین کے لۓ ہے ، اور کسی ایک نے خلوت یا جماعت میں صرف اسی پر اقتصا ر کرلیا ” اللہ اللہ اللہ ” یا ” ہو ” اور یا پھر ” لا ہو ، لا ہو”!
اور بعض مصنفین نے اسے تعظیم میں ذکر کیا اور اس کی دلیل کبھی تو وجد اور کبھی راۓ کوبنایا اور کبھی جھوٹی روایات کو جیسا کہ بعض یہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ تلقین کی وہ ” اللہ اللہ اللہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین مرتبہ دہرایا ، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اسے تین بار کہا ۔ تو محدثین کا ہا ں بالاتفاق یہ حدیث موضوع ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ماثور ذکر کی تلقین کیا کرتے تھے ، اور سب سے اعلی ذکر لا الہ الا اللہ ہے ، اور یہ وہی کلمہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اپنے چچا ابو طالب کے سامنے پیش کرتے ہوۓ کہا تھا : اے چچا لاالہ الا اللہ کہ دو یہ ایسا کلمہ ہے میں اسے اللہ تعالی کے ہاں بطور حجت پیش کروں گا ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : ( میرے علم میں ایک ایسا کلمہ ہے جسے کوئ بندہ بھی موت کے وقت کہتا ہے وہ اسے اپنی روح کے لۓ راحت پاتا ہے )
اور یہ بھی فرمایا : ( جس کی (مرتے وقت ) آخر ی کلام لاالہ الا اللہ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا )
اور یہ بھی فرمایا : ( جو اس حال میں مرا کہ اسے لاالہ الا اللہ کا علم ہو وہ جنت میں داخل ہو گا )
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :
( مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ لاالہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ کی گواھی نہیں دے لیتے جب وہ وہ کلمہ پڑھ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال محفوظ کرلیا مگر حق (قصاص ) میں نہیں اور ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے )
اس موضوع کے متعلق بہت سی احادیث پائ جاتی ہیں ۔ مجموع الفتاوی ابن تیمیۃ ( 10 / 556 – 558 )
اور جو بھی اپنی عبادت میں کتاب وسنت کو مرجع و مصدر بناتا ہے وہ خطا اور صحیح کی تمیز کرنے میں کبھی بھی عاجز نہي ہوا ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی طرف احسن طریقے سے لوٹاۓ ۔ آمین
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد