کیا جادو کی کوئی حقیقت ہے ؟ اور کیا یہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی اقسام کون سی ہیں ؟
جادو اور اس کی اقسام
سوال: 9432
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب تعریفیں اللہ تعالی کے لۓ ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور ان کے صحابہ اور جو ان کے طریقہ پر چلنے والے ہیں ان پر درود و سلام کے بعد !
جادو کرنا بہت بڑا جرم اور کفر کی ایک قسم ہے جس میں پہلی امتوں کے لوگ اور دور جاہلیت میں بھی اور اس امت کے لوگ پہلے بھی اور آج کے دور میں بھی مبتلا رہے ہیں ۔
جہالت کی کثرت اور قلت علم اور قلت ایمان اور حرام کاموں سے باز رکھنے والوں کا غلبہ قلیل ہونے کی بناء پر جادو کرنے والے اور شعبدہ بازوں کی کثرت ہو چکی ہے اور یہ لوگ ملک میں لوگوں کے مال کے لالچ میں اور ان پر کتمان حقیقت کے لۓ ملک میں پھیلتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہیں :
تو جب علم ظاہر ہو جائے اور ایمان کی کثرت ہو اور اسلامی طاقت قوی ہو جائے تو اس قسم کے خبیث لوگ کم اور سمٹ جاتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں تا کہ ایسی جگہ تلاش کر سکیں جہاں پر یہ اپنے باطل کو رواج دیں اور فساد اور شعبدہ بازی کو دکھا سکیں ۔
اور قرآن مجید اور سنت نبوی نے جادو کی اقسام اور ان کا حکم بیان کیا ہے ۔
جادو کو جادو اس لۓ کہا جاتا ہے کہ اس کے اسباب مخفی (چھپے ) ہوتے ہیں اور اس لۓ کہ جادوگر ایسی پوشیدہ اشیاء سے کام لیتے ہیں جن کی بناء پر لوگوں پر خیال اثر عمل اور حقیقت کو چھپانے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو سکیں اور انہیں نقصان پہنچا کر ان کے مال وغیرہ کو چھین سکیں اور ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ عام طور پر سمجھ میں نہیں آ سکتے اور اسی لۓ رات کے آخری حصہ کو سحر کہتے ہیں کیونکہ اس میں لوگ غفلت میں اور حرکت میں کمی ہوتی ہے اور پھپھڑے کو بھی سحر کہتے ہیں کیونکہ یہ جسم کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے ۔
اور اس کا شرعی طور پر معنی یہ ہے کہ جو جادوگر لوگوں پر خلط ملط کرتے ہیں اور انہیں تخیل پیش کرتے ہیں تو اسے دیکھنے والا حقیقت تصور کرتا ہے حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا – جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
" کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اب تو موسی علیہ السلام کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں پس موسی نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا ہم نے فرمایا خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے انہوں نے جو کچھ بنایا ہے صرف یہ جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آۓ کامیاب نہیں ہوتا " – طہ 65 – 69
اور بعض اوقات جادوگر ایسی گرہیں لگا کر جادو کرتے ہیں کہ ان گرہوں میں پھونکیں مارتے ہیں – جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
" اور گرہیں ( لگا کر ان ) میں پھونک مارنے والیوں کی شر سے " الفلق 4
اور کبھی دوسرے اعمال کے ساتھ جادو کرتے ہیں جن تک پہنچنے کے لۓ شیطانوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور ایسا عمل کرتے ہیں کہ جس سے انسان کی عقل میں تغیر آ جاتا ہے اور بعض اوقات یہ عمل مرض کا باعث بنتے ہیں اور یا پھر بعض اوقات خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کا سبب بنتا ہے جس کی بنا پر اس کی بیوی اس کے سامنے قبیح الشکل ہو جاتی ہے جس سے وہ اسے ناپسند کرنا شروع کر دیتا ہے اور اسی طرح بیوی کے ساتھ بھی جادوگر یہی عمل کرتا ہے تو وہ اپنے خاوند سے نفرت اور بغض کرنے لگتی ہے – اور یہ عمل نص قرآنی کے مطابق صریحا کفر ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور اس چیز کے پیچھے لگ گۓ جسے شیاطین سلیمان ( علیہ السلام ) کی حکومت میں پڑھتے تھے سلیمان (علیہ السلام ) نے تو کفر نہیں کیا – لیکن شیطانوں نے کفر کیا تھا وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے " البقرہ / 102
تو اللہ تعالی نے ان کا کفر یہ بیان کیا کہ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے – اور اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
" اور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر " – البقرہ / 102
پھر اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا :
" پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے البقرہ 102
یعنی یہ جادو اور جو اس سے شر واقع ہو رہا ہے تو یہ سب اللہ تعالی کی تقدیر مسبق اور اس کی مشیت سے ہے تو ہمارا رب جل وعلی مغلوب نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی بادشاہی میں اس کے ارادہ کے بغیر کچھ ہوسکتا ہے بلکہ نہ تو اس دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کسی چیز کا وقوع ہو سکتا ہے سواۓ اس کے جو تقدیر میں پہلے سے لکھا گیا ہے جس بلیغ حکمت کے تحت اللہ سبحانہ وتعالی نے چاہا تو یہ جادو کے ساتھ آزماۓ جاتے ہیں اور ان کی مرض کے ساتھ آزمائش ہوتی ہے اور وہ قتل کے ساتھ آزماۓ جاتے ہیں – وغیرہ – اور اللہ تعالی جو فیصلہ اور تقدیر بناتا ہے اس میں کوئی اللہ کی بلیغ حکمت ہے اور جو چیز بھی لوگوں کے لۓ مشروع کی گئی اس میں کوئی حکمت ہے – تو اسی لۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
" اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے " البقرہ 102-
یعنی اس کی کونی اور قدری اجازت کے ساتھ نہ کہ شرعی اجازت کے ساتھ – شرع تو اس سے روکتی اور منع اور اسے ان پر حرام کرتی ہے لیکن اس تقدیری اجازت کے ساتھ جو کہ اللہ تعالی کے علم اور تقدیر سابق جو کہ پہلے گذر چکی ہے کہ فلاں مرد اور فلان عورت سے جادو کا وقوع ہو گا اور یہ جادو فلاں مرد پر اور فلان عورت پر ہو گا جس طرح کہ یہ تقدیر بھی لکھی جا چکی ہے کہ فلاں آدمی قتل کیا جائے گا اور فلاں کو یہ بیماری ہو گی اور اس ملک میں مرے گا اور اسے اتنا رزق ملے گا اور یہ غنی ہو گا یا فقیر تو یہ سب اللہ تعالی کی مشیت اور تقدیر سے ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
" بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک ( مقررہ ) اندازے پر پیدا کیا ہے " القمر 49
اور فرمان باری تعالی ہے :
" نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے اور نہ ہی تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلےکہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور یہ کام اللہ تعالی پر آسان ہے " الحدید 22
تو یہ شر جو کہ جادوگروں اور دوسرے لوگوں سے واقع ہو رہا ہے اس سے تمہارا رب جاہل نہیں بلکہ یہ سب اس کے علم میں ہے اللہ سبحانہ وتعالی پر کوئی چیز مخفی نہیں /
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
" بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر علم رکھنے والا ہے " الانفال 75
" تا کہ تم جان لو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالی نے ہر چیز کو علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے " – الطلاق 12
تو وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کی بادشاہی میں اس کا وقوع نہیں ہو سکتا جسے اللہ سبحانہ وتعالی نہ چاہے لیکن جس چیز میں وہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تقدیر میں جس کے اندر لوگ واقع ہوتے ہیں اس کی حکمت بالغہ اور اچھی غایات ہیں کسی کو عزت اور کسی کو ذلت اور کسی کی حکومت چھین لینا اور کسی کو دے دینا اور بیماری اور صحت اور جادو وغیرہ ۔
اور وہ سارے امور جن کا بندوں میں وقوع ہو رہا ہے اس کی مشیت اور تقدیر سابق سے ہیں اور یہ جادوگر ایسی اشیاء اور افعال کرتے ہیں جو کہ تخیلاتی ہوتی ہیں جیسا کہ اس کا بیان اس فرمان ربانی کے تحت پہلے گذر چکا ہے :
" کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اب تو موسی علیہ السلام کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں " طہ 65- 66-
دیکھنے والے کو یہ لاٹھی اور رسیاں وادی میں چلتے ہوۓ سانپ محسوس ہو رہے تھے اور وہ یہاں رسیاں اور لاٹھیاں تھیں جنہیں جادوگروں نے ان اشیاء اور افعال کی بناء پر جو کہ انہوں نے حقائق کو بدلنے کے لۓ سیکھے اور لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کۓ ان کی بناء پر خیال میں ڈال دیا کہ یہ سانپ ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے "
موسی (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں " طہ 66
اور اللہ تعالی نے سورت اعراف میں فرمایا ہے :
" کہنے لگے تم ہی ڈالو پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بہت بڑا جادو دکھلایا " الاعراف 116
اور وہ حقیقت میں تبدیل نہیں ہوۓ بلکہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں تھیں لیکن جادو کی بناء پرلوگوں کی آنکھوں میں تبدیلی آئی تھی تو انہوں نے اسے جادوگروں کی کتمان حقیقت کے سبب سے سانپ سمجھ لیا اور بعض لوگ اس کا نام تقمیر رکھتے ہیں وہ یہ کہ جادوگر ایسا عمل کرتا ہے جس کی حقیقت کا انسان کو شعور نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے تو اس کی نظر حقیقت کو نہیں پا سکتی تو بعض اوقات اس کی دوکان یا گھر سے کوئی لے لی جاتی ہے تو اسے کوئی علم نہیں ہوتا یعنی وہ واقعہ اس کی نظروں میں بدل چکا ہے تو اس کی آنکھوں کو جادو کر دیا گیا ہے اور ان اشیاء کو جسے جادوگر استعمال کرتا ہے اور آنکھیں اس حقیقت کو جس پر وہ دیکھ نہیں پاتیں تو یہ جادو ہے جسے اللہ تعالی نے عظیم کے نام سے تعبیر کیا ہے کہ وہ بہت بڑا جادو ہے ۔
سورت اعراف میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
" پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بہت بڑا جادو دکھلایا " الاعراف 116 .
ماخذ:
کتاب ۔۔۔ مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ - تالیف۔۔۔ فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ت