ميرى منگيتر كى مباشرت و جماع كے متعلق عجيب سوچ ہے، اس كى رائے ميں مباشرت كرنا صحيح نہيں، وہ يہ شرط ركھ رہى ہے كہ شادى كے بعد اس سے مباشرت نہ جائے، اسى سوچ اور فكر پر مصر ہے كہ اگر اس كا مطالبہ نہ مانا گيا تو وہ مجھ سے شادى نہيں كريگى، ليكن وہ لڑكى دين پر عمل كرنے والى ضرورى ہے، آپ كيا مشورہ ديتے ہيں ؟
عورت كا خاوند كے ليے عدم مباشرت كى شرط ركھنا
سوال: 94454
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اللہ كى جانب سے حلال كردہ چيز كو اپنے ليے حرام كرنا جائز نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اللہ كى جانب حلال كردہ پاكيزہ چيزوں كو اپنے ليے حرام مت كرو، اور حد سے تجاوز مت كرو يقينا اللہ تعالى حد سے تجاوز كرنے والوں سے محبت نہيں فرماتا المآئدۃ ( 87 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اسلام ميں رہبانيت نہيں ہے “
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 4 / 287 ) ميں درج كيا ہے.
اور پھر خاوند و بيوى كے مابين معاشرت كو ايك غير صحيح امر كا وصف دينا اور اسے سلبى چيز قرار دينا بہت ہى غلط اور برائى ہے، كيونكہ جب اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں كے ليے اسے حلال كيا ہے اور سب سے افضل و اعلى انسان اور سب انبياء سے افضل و اعلى شخص نے جب اس سے فائدہ اٹھايا ہے تو پھر يہ ايسے نہيں ہو سكتا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور البتہ تحقيق ہم نےآپ سے قبل بہت سارے رسول مبعوث كيے اور ان كى بيوياں اور اولاد بھى بنائى الرعد ( 38 ).
پھر يہ بھى ہے كہ اگر لوگ اس غلط بات پر عمل كرنے لگيں تو پھر زمين پر نسل انسانى كيسے باقى رہے گى ؟
اور پھر روز قيامت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم باقى انبياء سے اپنى امت زيادہ ہونے ميں كيسے فخر كريں گے، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زيادہ بچے جنم دينے والى عورت سے شادى كرنے كى ترغيب دلائى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم ايسى عورت سے شادى كرو جو سب سے زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جنم دينے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت سے باقى امتوں پر فخر كروں گا ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ).
دوم:
جب كوئى عورت يا اس كى ولى ايسے شرط ركھے كہ اس كا خاوند اس سے مطلقا وطئ نہيں كريگا، يا پھر ايك بار ہى وطئ كريگا تو نكاح كے مقاصد كے منافى ہونے كى بنا پر يہ شرط باطل ہوگى.
كيونكہ خاوند تو اس سے استمتاع اور عفت و عصمت اور اولاد چاہتا ہے.
كيا اس صورت ميں يہ عقد نكاح صحيح ہوگا اور شرط باطل قرار دى جائيگى يا پھر عقد نكاح ہى اصلا باطل ہوگا ؟
اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، مالكيہ اور شافعيہ اس صورت ميں عقد نكاح كو باطل قرار ديتے ہيں، ليكن حنفيہ اور حنابلہ كے ہاں يہ شرط باطل ہوگى اور نكاح صحيح ہوگا.
شافعى كتب ” مغنى المحتاج ” ميں درج ہے:
” اگر شرط نكاح كے اصلى مقصد ميں مخل ہو مثلا كوئى شرط ركھے كہ خاوند اسے سے بالكل وطئ نہيں كريگا، يا پھر اس سے سال ميں صرف ايك بار وطئ كريگا، يا پھر صرف رات كو يا صرف دن كے وقت ہى وطئ كريگا، يا يہ شرط ركھے كہ اسے طلاق دے گا چاہے وطئ كرنے كے بعد ہى طلاق دے، تو اس سے نكاح باطل ہو جائيگا، كيونكہ يہ شرط عقد نكاح كے مقصد كے منافى ہے اس ليے نكاح كو باطل كر دےگى ” انتہى بتصرف.
ديكھيں: مغنى المحتاج ( 4 / 377 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ ” المغنى ” حنابلہ كى كتاب ميں كہتے ہيں:
” جس سے شرط باطل اور عقد نكاح صحيح ہوتا ہو مثلا: شرط ركھے كہ عورت كو مہر نہيں ملےگا.. يا پھر عورت شرط ركھے كہ خاوند اس سے وطئ نہيں كريگا، يا پھر عزل كرے گا تو يہ شروط فى نفسہ باطل ہيں؛ كيونكہ يہ عقد نكاح كے مقاصد كے منافى ہيں، ليكن عقد نكاح صحيح ہوگا..
اور اگر خاوند شرط ركھے كہ وہ بيوى سے وطئ نہيں كريگا تو عقد نكاح باطل ہونے كا احتمال ہے؛ كيونكہ يہ شرط مقاصد نكاح كے منافى ہے، امام شافعى كا مسلك يہى ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 72 ) مزيد حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 131 ) اور فتاوى عليش المالكى ( 1 / 333 ) اور حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 237 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اس بنا پر آپ كے ليے اس شرط پر موافقت كرنا جائز نہيں اور نہ ہى اس عورت كے ليے ايسى شرط ركھنا جائز ہے، كيونكہ يہ شرط مقاصد نكاح كے مخالف ہونے كى بنا پر فاسد ہے، اس ليے اسے ايسى شرط لگانے كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اللہ تعالى پر بغير علم كوئى بات مت كرے.
اور يہ علم ميں ركھيں كہ لڑكا اپنى منگيتر كے ليے اجنبى ہے اس ليے منگيتر كے ساتھ بغير كسى ضرورت كے بات چيت كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس كے ليے وہ باقى اجنبى عورتوں جيسى ہى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب