فرشتوں پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟
فرشتوں کا تعلق غیبی جہان سے ہے، اللہ تعالی نے انہیں نور سے پیدا کیا ہے ، یہ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں؛ کیونکہ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ترجمہ: اللہ انہیں جو بھی حکم دیتا ہے فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور انہیں جو کچھ بھی حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں۔[التحریم: 6]
فرشتوں پر ایمان میں چار چیزیں ہونا ضروری ہے:
- اس بات کا اقرار کہ فرشتے موجود ہیں اور یہ اللہ تعالی کی پروردہ تابع فرمان مخلوق ہیں، اور اللہ تعالی کے ہاں انہیں معزز مقام حاصل ہے، ان کی خوبی یہ ہے کہ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ (26) لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ترجمہ: وہ معزز ترین بندے ہیں [26] اور وہ اللہ کے ہاں زبان درازی نہیں کرتے، اور وہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ [الانبیاء: 26 – 27]
- جن فرشتوں کے نام شریعت نے بتلائے ان کے ناموں پر ایمان رکھنا، مثلاً: جبریل، میکائیل، اسرافیل، مالک اور رضوان وغیرہ علیہم السلام۔
- جن فرشتوں کی صفات شریعت نے ہمیں بتلائیں ان پر ایمان لانا، مثلاً: ہمیں احادیث نے بتلایا کہ سیدنا جبریل علیہ السلام کے 600 پر ہیں، اور ان کی جسامت اتنی بڑی ہے کہ وہ پورے افق میں چھائے ہوئے تھے۔
- جن فرشتوں کی ذمہ داریاں شریعت نے بتلائیں ان پر ایمان رکھنا، مثلاً: جبریل علیہ السلام کی ذمہ داری وحی کی ہے، اسرافیل علیہ السلام کی ذمہ داری صور میں پھونکنے کی ہے، میکائیل علیہ السلام کی ذمہ داری بارش نازل کرنے کی ہے، جبکہ مالک علیہ السلام کی ڈیوٹی جہنم پر ہے۔
یہاں اس بات پر ایمان رکھنا بھی لازم اور اہمیت کا حامل ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے دو فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اعمال لکھتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ* مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ترجمہ: جب (بندے کے ہر قول و فعل کو) دو لکھنے والے لکھتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ [17] وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک نگران مستعد ہوتا ہے۔ [ق: 17 – 18] تو یہ مستعد نگران انہی فرشتوں میں سے ہوتا ہے۔ لہذا مسلمان کو خیال کرنا چاہیے کہ فرشتے اس کی بری باتیں بھی لکھیں اور کل قیامت کے دن اسے بری بھی لگیں؛ کیونکہ جو بھی لفظ زبان سے نکلے گا یہ فرشتے اسے لکھ لیتے ہیں، پھر قیامت کے دن سب کچھ اسے اپنے سامنے لکھا ہوا اور واضح نظر بھی آئے گا، اور اسے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال خود پڑھو تمہارا احتساب کرنے کے لیے تمہاری کتاب ہی کافی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (13) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ترجمہ: ہم قیامت کے دن اس کے لیے کتاب نکالیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ [13] تو اب اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود ہی اپنا احتساب کرنے کے لیے کافی ہے۔ [الاسراء: 13 – 14]
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری پردہ پوشی فرمائے اور ہمیں معاف فرما دے، یقیناً وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
واللہ اعلم
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (843) کا جواب ملاحظہ کریں۔
مراجع:
- “أعلام السنة المنشورة” (86)
- “مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین” (3 / 160)