کلمہ ، عقیدہ ،، کا کیامعنی ہے ؟
کلمہ عقیدہ کااشتقاق اوراس کامدلول
سوال: 951
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عقائدان امورکوکہتےہیں جن کی نفس تصدیق کرتےاوراس پردلوں کواطمینان نصیب ہوتاہےاوراہل عقیدہ کےہاں وہ یقینی ہوتےہیں جس میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں ہوتا۔
اورلغت میں عقیدہ مادہ (عقد) سےماخوذہےجس کامدارلازم اورتاکید، پختگی پر ہے ۔
اللہ تعالی نےقرآن مجیدمیں ارشادفرمایا ہے :
اللہ تعالی تمہیں ان قسموں پرنہیں پکڑےگاجوپختہ نہ ہوں ہاں اس کی پکڑاس چیز پر ہے جوتمہارے دلوں کافعل ہو ۔
اورقسموں کی پختگی دل کےقصداوراس کےعزم کےساتھ ہوتی ہے کہاجاتا ہے کہ (عقدالحبل) یعنی اس نےرسی کوگرہ لگائی ) یعنی ایک دورسرےکےساتھ باندھا ۔
اورالاعتقاد : یہ عقدسے ہے جس کامعنی باندھنا اورمضبوط کرنا ہے ۔کہتےہیں کہ (اعتقدت کذا) میں یہ اعتقادبنایا ) یعنی اس کامیں نےدل میں عزم کیا،تواعتقادپختہ ذہن کا حکم ہے ۔
اورشرعی اصطلاح میں عقیدہ یہ ہے کہ :
ایسےامورجن کامسلمان پراپنےدل میں عقیدہ رکھناواجب اوران پربغیرکسی شک وشبہ کے پختہ ایمان رکھناواجب ہو ۔
کیونکہ اللہ تعالی نےان امورکابطریق وحی اپنی کتاب میں یاپھراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کرکے بتایا ہے ۔
اورعقیدے کےاصول جن کےاعتقادکااللہ تعالی نےہمیں حکم دیاہے وہ اس فرمان میں مذکور ہیں :
رسول ایمان لایااس چیز پرجواس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سےنازل ہوئی اورمومن بھی ایمان لائےیہ سب اللہ تعالی اوراس کےفرشتوں پراوراس کی کتابوں پراوراس کے رسولوں پرایمان لائے ہم اس کےرسولوں میں کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نےسنااوراطاعت کی اے ہمارے رب ! ہم تیری بخشش کےطلبگارہیں اورہمیں تیری طرف ہی لوٹنا ہے ۔
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تحدیدمشہورحدیث جبریل علیہ السلام میں اس قول کےساتھ فرمائی ہے (ایمان یہ ہے کہ : کہ تواللہ تعالی اوراس کےفرشتوں اوراس کی کتاب اوراس کی ملاقات اوراس کےرسولوں پرایمان لائےاوردوسری دفعہ اٹھنے پرایمان لائے )۔
تواسلام میں عقیدہ یہ ہوا کہ : وہ مسائل علمیہ جن کےمتعلق اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےصحیح خبردی گئی اورجن کامسلمان اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتےہوئےاعتقاد رکھناواجب ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
دیکھیں کتاب : لمعۃ الاعتقادلابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ۔ - اورالعقیدۃ فی اللہ لعمربن الاشقر ۔