ہمارے رمضان المبارك ميں الحمد للہ مسجديں عورتوں سے بھر جاتى ہے، اس ليے مسجد كى انتظاميہ عورتوں كے ليے مسجد سے باہر نماز ادا كرنے كے ليے جگہ كا اہتمام كرتى ہے، ميں جب ديكھوں كے مسجد بھر چكى ہے تو ميں وہاں نماز ادا نہيں كرتى بلكہ واپس لوٹ آتى ہوں تا كہ گھر ميں نماز ادا كروں، ليكن آج ميں اس مسئلہ ميں ايك عورت سے بات كر رہى تھى تو اس نے كہا كہ اس جگہ نماز ادا نہ كرنے كى كوئى دليل نہيں، اور اس ميں كوئى مانع نہيں، جبكہ آپ ڈرائيور كے ساتھ آتى ہيں، اور اس سے بات چيت بھى كرتى ہيں، يا دوكاندار سے بھى بات كرتى ہيں، تو پھر اسے آپكو نماز ادا كرتے ہوئے ديكھنے كيا چيز مانع ہے.
اسى طرح اس نے يہ بھى بتايا كہ: حرم ميں عورتيں مردوں كے ساتھ نماز ادا كرتى ہيں، افسوس ہے كہ ميرے پاس اس كى اس رائے كو غلط قرار دينے كے ليے كوئى حديث نہ تھى، يا ميرے حق پر ہونے كى كوئى دليل نہ تھى، اس ليے ميں نے اس سے وعدہ كيا كہ ميں كل ان شاء اللہ تلاش كر كے اس شافى جواب لاؤنگى، آپ سے گزارش ہے كہ آپ اس مسئلہ كى وضاحت كريں، اور يہ بھى بتائيں كہ حرم ميں عورتيں مردوں كے ساتھ كيوں نماز ادا كرتى ہيں ؟
كيا عورت مسجد كے باہر مردوں كے سامنے نماز ادا كر سكتى ہے ؟
سوال: 95577
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسجد ميں نماز باجماعت كى ادائيگى كے ليے عورت كا گھر سے نكلنا جائز ہے، چاہے وہ فرضى نماز ہو يا تراويح وغيرہ كى نماز ليكن عورت كے ليے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنا بہتر اور افضل ہے.
مسند احمد ميں ابو حميد ساعدى كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ:
وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے علم ہے كہ تم ميرے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہو، اور تيرا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنا تيرا اپنے حجرہ ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنے حجرہ ميں نماز ادا كرنا اپنے گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنے گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى اس مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 27135 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور شعيب ارناؤط نے مسند احمد كى تحقيق ميں حسن كہا ہے.
دوم:
جب عورت مسجد ميں نماز ادا كرتے تو اس كے ليے افضل يہ ہے كہ وہ مردوں سے دور ہو كر نماز ادا كرے، اسى ليے عورتوں كى پچھلى صفوں كو عورتوں كى اگلى صفوں سے افضل قرار ديا گيا ہے، كيونكہ پچھلى صفيں مردوں سے دور ہوتى ہيں، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے سلام پھيرتے تو وہ اپنى جگہ كچھ دير تك بيٹھے رہتے تھے تا كہ مردوں كے جانے سے قبل عورتيں چلى جائيں، اور ان ميں اختلاط نہ ہو.
مسلم شريف ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مردوں كى سب سے بہتر صف پہلى، اور برى آخرى صف ہے، اور عورتوں كى سب سے افضل صف اس كى آخرى صف ہے، اور سب سے پہلى صف برى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 440 ).
سوم:
اگر عورت كسى ايسى جگہ مثلا بيت اللہ يا مسجد كے صحن وغيرہ ميں نماز ادا كرے جہاں اسے مرد ديكھ رہے ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، يا اگر اسے كھلى جگہ صحرا وغيرہ ميں نماز ادا كرنے كى ضرورت پيش آ جائے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ وہ اپنے سارے بدن كو چھپا كر نماز ادا كرے، اور راجح يہ ہے كہ اسكا چہرہ اور ہاتھ بھى نظر نہ آئيں، اس ليے كہ عورت كو اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرہ اور ہاتھ چھپانے كا حكم ہے.
اس كى تفصيل اور دلائل سوال نمبر ( 11774 ) اور سوال نمبر ( 21536 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر عورت كے ساتھ مسجد حرام ميں اجنبى مرد بھى ہوں تو عورت نماز كيسے ادا كرے ؟
اور اسى طرح دوران سفر راستے ميں آنے والى مسجد ميں اگر عورتوں كى نماز كے ليے مخصوص جگہ نہ ہو تو پھر ؟
كميٹى كا جواب تھا:
نماز ميں عورت پر چہرہ اور ہاتھوں كے علاوہ باقى سارا جسم ڈھانپنا واجب ہے، ليكن اگر وہ اجنبى مردوں كى موجودگى ميں نماز ادا كر رہى ہو تو پھر وہ اپنے چہرہ اور ہاتھوں سميت سارے بدن كو چھپا كر نماز ادا كريگى " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 339 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات