ميرى خالہ يا پھوپھى كا خاوند دوسرى شادى كى اجازت مانگتا ہے، اس نے بتايا ہے كہ عنقريب شب زفاف منائےگا، مشكل يہ درپيش ہے كہ ميرى پھوپھى يا خالہ اپنى بيمارى كى بنا پر پچھلے چند برس ملازمت نہيں كر سكتى تھى ليكن خاوند اسے ملازمت پر مجبور كرتا رہا، اور خاوند خود بھى ملازم ہے ليكن وہ اپنى بيوى كى سارى تنخواہ بھى لے كر اسے تھوڑى سى رقم ديتا ہے، اس نے كہا كہ وہ نہ تو گھر كا كرايہ ادا كريگا اور نہ ہى كھانے پينے كے اخراجات اس ليے اسے زيادہ كام كرنا چاہيے اور كام اس كى بيمارى كا سبب بنتا ہے.
ميرى خالہ يا پھوپھى ہى سارے اخراجات برداشت كرتى ہے، اور خاوند كہتا ہے كہ اس كے پاس مال نہيں، حالانكہ وہ سارى رقم اور مال دوسرى بيوى كے گھر اور اس كى رخصتى پر خرچ كرنا چاہتا ہے، ہم نے خالہ يا پھوپھى كو كہا ہے كہ وہ اس سے بھاگ كر ہمارے پاس آ كر رہائش اختيار كرلے.
اور يہ پہلى بار نہيں كہ وہ دوسرى شادى كر رہا ہے اور ہمارى خالہ يا پھوپھى كا خيال نہيں كرتا، ليكن ميرى خالہ يا پھوپھى كہتى ہے كہ وہ اسے ايك اور موقع دينا چاہتى ہے كيا ہمارے ليے حرام ہے كہ ہم خالہ يا پھوپھى كو كچھ عرصہ اپنے پاس رہنے پر ابھاريں، اور اس سے طلاق حاصل كر لے ؟
ہميں خدشہ ہے كہ وہ اور زيادہ بيمار نہ ہو جائيں، كيا طلاق ان كا حق نہيں ؟
خاوند ملازمت كرنے پر مجبور كرتا اور كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے كيا وہ طلاق طلب كر لے ؟
سوال: 96576
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند پر واجب كيا ہے كہ وہ بيوى كو رہائش و لباس مہيا كرے، اور اس كے سارے اخراجات برداشت كرے، اور اللہ اللہ عزوجل نے يہ سب بيوى كے حقوق بنائے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اپنى طاقت كے مطابق تم جہاں خود رہتے ہو ان عورتوں كو بھى وہيں ركھو الطلاق ( 6 ).
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور خاوند پر لازم ہے كہ وہ اپنى بيوى كو بقدر استطاعت اپنى طاقت كے مطابق رہائش دے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اپنى استطاعت كے مطابق ان عورتوں كو وہيں ركھو جہاں خود رہتے ہو الطلاق ( 6 ).
ديكھيں: المحلى ( 9 / 253 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” خاوند پر بيوى كو رہائش دينا واجب ہے اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
انہيں اپنى استطاعت كے مطابق رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو…. .
چنانچہ جب مطلقہ عورت كو رہائش دينا واجب ہوا تو پھر جو نكاح ميں ہو اسے رہائش دينا تو بالاولى واجب ہوگا، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان كے ساتھ اچھے طريقہ سے بودوباش اختيار كرو .
اور معروف ميں يہ بھى شامل ہے كہ بيوى كو رہائش دى جائے، اور اس ليے بھى كہ لوگوں كى نظروں سے محفوظ رہنے كے ليے عورت كو گھر اور رہائش كى ضرورت ہے، اور اس ليے بھى كہ كام كاج اور استمتاع اور سامان كى حفاظت كے ليے بھى گھر كى ضرورت ہے ”
ديكھيں: المغنى ( 9 / 237 ).
معاويہ بن حيدہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك شخص نے دريافت كيا كہ عورت كا خاوند پر كيا حق ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تم خود كھاؤ تو اسے بھى كھلاؤ، اور جب تم خود لباس پہنو تو اسے بھى پہناؤ، اور اس كے چہرہ پر مت مارو، اور نہ ہى اسے قبيح و بدصورت كہو، اور گھر كے علاوہ كہيں نہ چھوڑو ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1850 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1929 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ميں بيوى كے ليے نان و نفقہ اور لباس كا وجوب پايا جاتا ہے، اس ميں كوئى حد معلوم نہيں، بلكہ يہ تو معروف اور اچھے انداز ميں خاوند كى استطاعت و جديت كے مطابق ہوگا اور پھر جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بيوى كا حق قرار ديا ہے تو يہ خاوند پر لازم ہوگا، چاہے خاوند موجود ہو يا غائب اور اگر وہ نہيں پاتا تو يہ اس پر اسى طرح قرض ہوگا جس طرح باقى حقوق زوجيت كى ادائيگى ہوتى ہے.
ديكھيں: معالم السنن على ھامش المنذرى ( 3 / 67 – 68 ).
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرو، تم نے انہيں اللہ كى امانت كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور ان عورتوں كا لباس اور كھانا پينا تم پر اچھے طريقہ سے واجب ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس حديث ميں بيوى كے نان و نفقہ اور اس كى رہائش كا وجوب پايا جاتا ہے، اور يہ چيز بالاجماع ثابت ہے ”
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 8 / 184 ).
دوم:
ايك سے زائد بيوياں ركھنے والے شخص كو اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے بيويوں كے نان و نفقہ اور لباس و رہائش اور رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف كرنا چاہيے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ بيويوں كے مابين تقسيم ميں ظلم سے كام لے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” رہا نان و نفقہ اور لباس ميں عدل و انصاف كا مسئلہ تو اس ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا كرنا سنت ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نفقہ ميں بھى اپنى بيويوں كے مابين عدل كيا كرتے تھےجس طرح تقسيم ميں عدل كرتے حالانكہ لوگوں ميں يہ تنازع ہے كہ آيا يہ تقسيم آپ پر واجب تھى يا كہ مستحب تھى ؟
اور اس ميں بھى تنازع كرتے ہيں كہ آيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نان و نفقہ ميں عدل كرنا واجب تھا يا كہ مستحب ؟
كتاب و سنت كے مطابق اس كا وجوب زيادہ معلوم ہوتا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 269 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك سے زائد بيوياں ركھنے والے كو كسى ايك بيوى پر ظلم كرنے سے اجتناب كرنے كا كہا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس كى دو بيوياں ہوں اور وہ ان ميں سے كسى ايك كى طرف مائل ہو تو كل قيامت كے دن وہ اس حالت ميں آئيگا كہ اس كى ايك طرف قائل ہو گى ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1141 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2133 ) سنن سنائى حديث نمبر ( 3942 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1969 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام ( 3 / 310 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 80 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اس پر دلالت كرتى ہے اور عام مسلمان علماء بھى اس پر ہيں كہ: مرد كے ليے اپنى بيويوں كے مابين دن اور رات كى تعداد تقسيم كرنا واجب ہے، اور اسے چاہيے كہ وہ اس ميں عدل و انصاف سے كام لے، اس كے ليے اس ميں ظلم كرنے كى اجازت نہيں ”
ديكھيں: الام ( 5 / 158 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
ميرے علم ميں تو اس كا كوئى مخالف نہيں كہ آدمى كو اپنى بيويوں كے مابين عدل و انصاف كرنا چاہيے ”
ديكھيں: الام ( 5 / 280 ).
اور امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر آدمى كى ايك سے زائد بيوياں ہوں اور وہ آزاد ہوں ـ چاہے وہ اہل كتاب سے ہوں يا مسلمان ـ تو ان كے مابين تقسيم ميں برابرى كرنا واجب ہے، اور اگر وہ تقسيم ميں برابرى نہيں كرتا تو اللہ سبحانہ و تعالى كى مخالفت كر رہا ہے، اور مظلوم عورت كے بارہ ميں اس كے مطابق ہى فيصلہ ہوگا ”
ديكھيں: شرح السنۃ ( 9 / 150 – 151 ).
سوم:
خاوند كے ليے بيوى كى رضامندى و خوشى كے بغير تنخواہ لينا جائز نہيں، اور پھر شريعتا سلاميہ نے عورت كے ليے مباح كام كاج كرنا مباح قرار ديا ہے، ليكن يہ لازم اور ضرورى نہيں كہ وہ ضرور ملازمت كرے، كيونكہ نان و نفقہ تو خاوند پر واجب ہے اور اس مال كى ملكيت بھى عورت كے ليے مباح ہے، اگر وہ اس مال ميں سے اپنے خاوند كو دے تو يہ جائز ہے، اور اگر خاوند اپنى بيوى كى اجازت اور خوشى كے بغير اس كا مال اور تنخواہ ليتا ہے تو يہ حرام ہوگى.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آپ كے ليے اپنى بيوى كى خوشى و رضامندى كے ساتھ اس كى تنخواہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، اگر وہ عقلمند ہے، اور اسى طرح ہر وہ چيز جو بيوى آپ كى مدد كے ليے آپ كو ديتى ہے اسے لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں اگر وہ اسے اپنى مرضى و خوشى سے ديتى ہو اور وہ عقل و رشد بھى ركھتى ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ تمہيں اپنى خوشى و رضامندى سے كچھ دے ديں تو اسے خوشى سے كھاؤ النساء ( 4 ).
اگرچہ يہ رسيد كے بغير ہى ہو، ليكن اگر وہ آپ كو اس كى رسيد دے دے تو يہ بہتر ہو گا جب آپ اس كے خاندان والوں اور اس كے اقربا سے يہ خدشہ ركھيں يا پھر بيوى كے واپس لينے كا خدشہ ركھتے ہوں ”
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 672 – 673 ).
چہارم:
جب بيوى كو يہ علم ہو كہ اس كى رہائش اور نان و نفقہ اور لباس وغيرہ خاوند كے ذمہ واجب ہے، اور يہ بھى علم ہو كہ خاوند كا اپنى بيويوں كے مابين عدل و انصاف كرنا واجب ہے، اور اسے يہ بھى علم ہو كہ خاوند كے ليے حلال نہيں كہ وہ بيوى كو ملازمت پر مجبور كرے، اسے تنخواہ دينے پر مجبور كرنا بھى حلال نہيں، پھر ديكھے كہ اس كا خاوند ان سب كا مخالف ہے يا اس ميں سے كچھ كا مخالف ہے تو بيوى كو اختيار حاصل ہے كہ يا تو وہ اس ظلم پر اس اميد سے صبر كرے كہ خاوند اپنى اصلاح كر لےگا، يا پھر وہ شرعى عدالت كے ذريعہ اپنے حقوق كا مطالبہ كر سكتى ہے.
اور اگر اس كا خاوند اپنى اصلاح نہيں كرتا، يا پھر اسے شرعى عدالت كے ذريعہ اس كے حقوق نہيں ملتے، اور نہ ہى وہ اپنے خاوند كے ظلم پر صبر كر سكتى ہے تو پھر اس صورت ميں اسے طلاق كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے، اور خاوند سے اپنے حقوق پورے حاصل كرے.
اس كے ساتھ ساتھ جتنا بھى عورت اپنے خاوند كے ظلم و ستم پر صبر كريگى، اور اپنے گھر كى حفاظت كرتى ہے تو يہ اس كے ليے طلاق حاصل كرنے سے افضل و اولى ہے؛ كيونكہ ہر حالت كى ايك خصوصيت ہے جس كے بارہ ميں كوئى رائے ظاہر كرنے سے قبل اس سب كو ديكھنا ضرورى ہے.
يہاں عورت كے ليے عقل و دانش ركھنے والے عزيز و اقارب سے مشورہ كرنا چاہيے، يا تو تو حالت صحيح ہو كر وہ عورت اپنى زندگى بہتر طرح بسر كر سكےگى، يا پھر وہ صبر يا طلاق ميں سے كوئى ايك چيز اختيار كر لے، اور اگر طلاق طلب كرنے كا كوئى شرعى سبب نہ پايا جاتا ہو تو پھر طلاق لينے سے اجتناب كرنا چاہيے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب