كيا انسان كا آئينے ميں ديكھنا ممنوعہ تصوير ميں شامل ہوتا ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو بركت عطا فرمائے.
تصاويرى كو آئينہ پر قياس كرنا
سوال: 96832
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انسان كا آئينہ ميں اپنا چہرہ ديكھنا ممنوعہ تصوير ميں شامل نہيں ہوتا، اہل علم نے اس سے دليل پكڑتے ہوئے ضوئى تصوير كو مباح قرار دينے والوں كا رد كرتے ہوئے ان دونوں كا فرق بيان كيا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ ان دونوں كو برابر قرار دينے والوں كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” اسے برابر قرار دينے ميں انہوں نے دو طرح سے غلطى كى ہے:
پہلى:
يہ تصوير اور فوٹو اتارنى آئينہ ميں ديكھنے والى تصوير كے مشابہ نہيں ہے، كيونكہ يہ فوٹو اپنى جگہ سے زائل نہيں ہوتى، اور اس سے فتنہ و خرابى موجود ہے.
ليكن آئينہ ميں جو تصوير نظر آتى ہے وہ ثابت نہيں، جب اس كے سامنے سے ہٹ جايا جائے تو وہ تصوير بھى ختم ہو جاتى ہے، اور يہ ايسا واضح فرق ہے جس ميں كوئى عقلمند شك نہيں كرتا.
دوسرى:
نبى معصوم صلى اللہ عليہ وسلم سے تصوير كى مطلقا حرمت ميں نص بيان ہوئى ہے، اور جو اس تصوير كى حرمت كى نص آئى ہے جو فوٹو كى جنس سے ہے، مثلا كپڑے اور ديواروں ميں تصوير.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك صحيح احاديث ميں وارد ہے كہ: جب آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس مجسموں اور تصاوير والا پردہ ديكھا تو ناراض ہوئے اور اسے پھاڑ كر فرمايا:
” بلا شبہ روز قيامت سب سے زيادہ عذاب مصوروں كو ہو گا ”
اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” بلا شبہ ان تصاوير والوں ـ ان تصاوير كى طرف اشارہ كيا جو كپڑے ميں تھيں ـ كو روز قيامت عذاب ديا جائيگا، اور انہيں كہا جائيگا اس ميں جان ڈال كر انہيں زندہ كرو جو تم نے بنايا ہے ”
اور نبى كريم صلى اللہ عليہو سلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے روز كعبہ مشرفہ كى ديواروں سے تصاويروں كو مٹايا تھا، اور يہ اس تصويروں كے حكم ميں ہے جو اتارى جاتى ہيں.
اور اگر ہم يہ تسليم بھى كر ليں كہ يہ فوٹو آئينہ والى تصوير كے مشابہ ہے تو بھى قياس جائز نہيں، كيونكہ يہ شرع ميں مقرر كردہ فيصلہ ہے كہ نص كى موجودگى ميں قياس نہيں ہو سكتا، بلكہ قياس تو اس صورت ميں ہے جب نص نہ ملے، جيسا اہل اصول اور سب اہل علم كے ہاں معلوم ہے ” انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 27 / 442 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
” اور كيمرہ سے فوٹو گرافى آئينہ كے سامنےكھڑا ہونے كى شكل بننے كى طرح نہيں ہے، كيونكہ آئينہ والا تو خيال ہے جو آئينہ كے سامنے كھڑے شخص كے وہاں سے ہٹنے كى صورت ميں ختم ہو جائيگا، اور يہ فوٹو تو كيمرہ كے سامنے سے ہٹ جانے كى صورت ميں بھى باقى رہے گى، جس سے عقيدہ ميں خرابى پيدا ہو گى، اور جس كى خوبصورتى كى بنا پر اخلاقيات ميں بھى خرابى پيدا ہوگى.
اور بعض اوقات ضرورت پيش آنے كى صورت ميں تو اس سے فائدہ اٹھايا جا سكتا ہے مثلا پاسپورٹ يا شناختى كارڈ، يا اقامہ يا ڈرائيونگ لائسنس ميں لگوانا.
اور فوٹو اتارنى صرف انطباع يعنى ڈھالنا نہيں بلكہ يہ تو كيمرہ كا عمل ہے جس سے يہ انطباع اور ڈھلاؤ پيدا ہوا ہے، اور يہ اس اٹوميٹك آلے كے ساتھ اللہ تعالى كى مخلوق پيدا كرنے ميں مقابلہ اور برابرى ہے.
پھر اس طريقہ اور آلہ كو ديكھے بغير جس سے فوٹو اتارى جاتى ہے اس تصوير كشى كى ممانعت تو عام ہے؛ كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى مخلوق پيدا كرنے ميں برابرى اور مقابلہ اور پھر عقيد و اخلاق كو خطرہ ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 673 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب