برائے مہربانى درج ذيل احاديث كى شرح فرمائيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” شادى كرو وگرنہ تم شيطان كے بھائيوں ميں شمار ہو گے ”
اور فرمان ہے:
” نكاح ميرى سنت ہے جس نے بھى ميرى سنت سے اعراض اور بےرغبتى كى وہ مجھ ميں سے نہيں ”
اور ايك روايت ہے:
” كنوارے كى موت سب سے رذيل ترين ہے ”
اور كيا يہ احاديث صحيح ہيں يا نہيں، معلومات فراہم كرنے پر آپ كا شكريہ. ؟
كنوارہ پن كى مذمت ميں وارد سب احاديث باطل ہيں
سوال: 96977
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
صحيح احاديث ميں شادى اور نكاح كى رغبت دلائى گى ہے، اور كتاب و سنت ميں بھى اس كے شواہد بكثرت موجود ہيں كيونكہ شادى ميں ظاہرى طور پر فضيلت اور بہت سارے محاسن و اوصاف پائے جاتے ہيں، اس كى تفصيل اور شرح ہمارى اسى ويب سائٹ پر بہت سارے سوالات كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.
آپ سے گزارش ہے كہ اس سلسلہ ميں آپ سوال نمبر ( 5511 ) اور ( 34652) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
شادى كى ترغيب ميں وارد احاديث ميں صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث بھى شامل ہے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” تين آدمى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر آئے اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے متعلق دريافت كيا، اور جب انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے متعلق بتايا گيا تو گويا انہوں نے اسے كم سمجھا اور وہ كہنے لگے:
كہاں ہم اور كہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تو اگلے پچھلےسب گناہ معاف كر ديے گئے ہيں.
ان ميں سے ايك كہنے لگا: ميں سارى رات نماز ادا كرتا رہوں گا.
اور دوسرا كہنے لگا: ميں ہميشہ روزے ہى ركھوں گا اور چھوڑوں گا نہيں.
اور تيسرا كہنے لگا: ميں عورتوں سے عليحدگى اختيار كرتے ہوئے كبھى شادى نہيں كرونگا.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس تشريف لائے اور فرمايا: كيا تم نے ايسى ايسى باتيں كى ہيں !!
اللہ كى قسم ميں تم ميں سب سے زيادہ خشيت الہى ركھتا ہوں، اور تم سب سے زيادہ اللہ كا تقوى اختيار كرنے والا ہوں، ليكن ميں روزہ ركھتا بھى ہوں اور روزہ چھوڑتا بھى ہوں، اور نماز بھى ادا كرتا ہوں اور رات كو سوتا بھى ہوں، اور ميں نے عورتوں سے شادى بھى كى ہے، چنانچہ جو كوئى بھى ميرى سنت اور طريقہ سے بے رغبتى كريگا وہ مجھ ميں سے نہيں “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5063 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1401 ).
ليكن يہ حديث كنوارے رہنے مطلقا شادى نہ كرنے كى مذمت ميں دليل نہيں بن سكتى، ليكن جب رہبانيت اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے شادى نہ كى جائے اور يہ سمجھا جائے كہ ايسا كرنے سے اللہ كا قرب حاصل ہوتا ہے، اور يہ گمان و اعتقاد ركھا جائے كہ شادى ترك كرنا اللہ كے قرب كا باعث ہے، اور كنوارہ شخص شادى شدہ شخص سے افضل ہے، تو اس صورت ميں يہ حديث اسے شامل ہو گى اور وہ ان افراد ميں شامل ہو گا جن سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے برات كا اظہار كيا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” السنۃ ” سے وہ طريقہ مراد ہے، نہ كہ وہ جو فرض كے مقابلہ ميں ہے، اور كسى چيز سے بےرغتبى كرنا اس سے اعراض برتنے كے مترداف ہے، اور اس سے مراد يہ ہے كہ:
” جس كسى نے بھى ميرا طريقہ ترك كيا اور كسى دوسرے كا طريقہ اختيار كيا تو وہ مجھ ميں سے نہيں ہے، اور وہ اس طرح رہبانيت كى راہ كى طرف چل رہا ہے، كيونكہ انہوں نے ہى تشديد كى بدعت ايجاد كى ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كا وصف بيان كيا ہے، اور ان پر عيب لگايا ہے كہ انہوں نے جس چيز كے التزام كرنے كا كہا اس كى وفا نہيں كى.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ تو يكسو اور صاف و اضح ہے، لہذا روزہ افطار اس ليے كيا جاتا ہے كہ تا كہ روزہ ركھنے كے ليے قوت حاصل كى جائے، اور سونا اس ليے ہے كہ تا كہ رات كو قيام كى استطاعت پيدا ہو، اور شادى اس ليے كى جاتى ہے كہ شہوت كو توڑا جائے، اور نفس ميں عفت و عصمت پيدا ہو، اور نسل ميں كثرت پيدا ہو.
قولہ:
” تو وہ مجھ ميں سے نہيں “
اگر تو وہ بے رغبتى تاويل كى ايك قسم ہو تو اس شخص كو معذور خيال كيا جائيگا، تو يہاں معنى يہ ہو گا كہ وہ مجھ ميں سے نہيں يعنى وہ ميرے طريقہ پر نہيں ہے، اور اس سے خروج ملت لازم نہيں.
اور اگر وہ اعراض و بے رغبتى اور حد سے تجاوز كرنا اس اعتقاد كى طرف لے جائے كہ اس كا عمل راجح ہے تو ” فليس منى ” كا معنى يہ ہوگا كہ وہ ميرى ملت پر نہيں؛ ايسا اعتقاد ركھنا كفر كى ايك قسم ہے.
اور حديث ميں نكاح كى فضيلت اور نكاح كى رغبت دلائى گئى ہے ” انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 105 – 106 ).
لہذا اس حديث ميں مطلق طور پر كنوارہ رہنے كى كوئى مذمت نہيں ہے، اور خاص كر اگر كسى ضرورت يا نكاح ميں رغبت نہ ہونے يا كسى بيمارى وغيرہ كى بنا پر ہو.
اور پھر شريعت اسلاميہ كسى ايسے شخص كى مذمت كيسے كر سكتى ہے جو شخص مذمت كا مستحق ہى نہ ہو، اور ايسے شخص كى مذمت كيسے كر سكتى ہے جو بيوى كے ساتھ رہ ہى نہ سكتا ہو كہ وہ ايك دوسرے سے مانوس ہو كر رہيں!!
عجيب بات تو يہ ہے كہ كچھ كذاب اور جھوٹے افراد نے ان افراد كى مناقضت اور مخالفت كرنے كى كوشش كى ہے جو مطلقا كنوارہ رہنے كى مذمت كرتے ہيں، اس ليے ان افراد نے كنوارہ رہنے كى مدح ثنائى كرنے والى احاديث وضع كر ليں، اور اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ لگايا.
حتى كہ ابن قيم رحمہ اللہ اس كے بارہ ميں لكھتے ہيں:
” كنوارہ رہنے كى مدح ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب باطل ہيں ” انتہى
ديكھيں: المنار المنفيف ( 177 ).
اس طرح آپ كو يہ علم ہو چكا ہے كہ كنوارہ رہنے كى مذمت اس كى مدح ميں كوئى حديث صحيح نہيں، بلكہ جس حديث ميں بھى كنوارہ رہنے كى مدح يا مذمت ہے وہ سب يا تو باطل ہيں يا پھر منكر.
علماء كرام نے ان احاديث كو جمع بھى كيا ہے اور ان كى تحقيق بھى كى ہے ليكن اس ميں سے كوئى بھى حديث صحيح نہيں پائى.
امام سخاوى رحمہ اللہ كنوارہ رہنے كى مذمت ميں كچھ احاديث بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
” اس كے علاوہ اور بھى احاديث ہيں ليكن وہ بھى ضعف اور اضطراب سے خالى نہيں، ليكن ان پر موضوع ہونے كا حكم نہيں لگايا جا سكتا ” انتہى
ديكھيں: المقاصد الحسنۃ ( 135 ).
اور تذكرۃ الموضوعات ميں بھى كچھ اس طرح كى كلام پائى جاتى ہے.
ديكھيں: تذكرۃ الموضوعات ( 125 ).
دوم:
اور يہ حديث:
” تم شادى كرو وگرنہ تم شيطان كے بھائى ہو ”
اور ” تمہارے فوت شدگان ميں سب سے رذيل اور ذليل ترين كنوارے ہيں “
كے متعلق عرض ہے كہ: يہ دونوں احاديث عكاف بن وداعۃ الھلالى كى احاديث ميں سے ہيں، اور يہ جتنے بھى طريق سے بيان ہوئى ہيں سب ضعيف ہيں.
ان كے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مذكورہ سب طرق ضعف اور اضطراب سے خالى نہيں ” انتہى
ديكھيں: الاصابۃ ( 4 / 536 ).
اور تعجيل المنفعۃ ميں درج ہے:
” اس كا كوئى بھى طريق ضعف سے خالى نہيں ” انتہى
ديكھيں: تعجيل المنفعۃ ( 2 / 20 ).
اور ابن الجوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں…. محدثين كا كہنا ہے كہ اس سلسلہ ميں كچھ بھى صحيح نہيں ” انتہى
ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 2 / 609 ).
اور البوصيرى رحمہ اللہ اس پر حكم لگاتے ہوئے كہتے ہيں:
” اس كى سارى اسانيد ضعيف ہيں ” انتہى
ديكھيں: اتحاف الخيرۃ المھرۃ.
اور علامہ البانى رحمہ اللہ اس پر منكر ہونے كا حكم لگاتے ہيں.
اس كے سب طرق مضطرب ہيں، يہ سب مكحول دمشقى پر جا كر جمع ہو جاتے ہيں، يہ شخص اہل شام كا فقيہ اور ثقہ ہے” تھذيب التھذيب ( 10 / 292 ) ليكن ضعف اس تك پہنچنے والى سند ميں ہے، يا پھر اس شيخ اور استاد ميں جس سے اس نے حديث لى ہے:
1 ـ يہ روايت برد بن سنان ـ يہ ثقہ ہے ـ راوى سے مروى ہے جو مكحول عن عطيہ بن بسر الھلالى عكاف بن واداعۃ الھلالى كے طريق سے ہے اس كے الفاظ درج ذيل ہيں:
” وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اے عكاف كيا تيرى بيوى ہے ؟
اس نے عرض كيا نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيا تيرى كوئى لونڈى بھى ہے ؟
اس نے عرض كيا: نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اور تم صحيح و تندرست اور مالدار بھى ہو ؟
تو اس نے عرض كيا: جى ہاں.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تو تم شيطان كے بھائى ہو، اگر تم نصارى كے راہبوں ميں سے ہو تو جاؤ ان كے ساتھ ملو، اور اگر تم ہم ميں سے ہو، تو اے ابن وداعۃ نكاح ہمارى سنت ہے!
يقينا تم ميں سے شرير ترين كنوارے لوگ ہيں، اے ابت وداعۃ تمہارے فوت شدگان ميں سے رذيل ترين كنوارے افراد ہيں! ……
اے ابن وداعۃ اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، نيك و صالح مرد و عورت كے ليے شيطان كا سب سے زيادہ سخت اسلحہ نكاح ترك كرنے كے علاوہ كوئى اور نہيں.
يہ تو ايوب اور داود اور يوسف اور كرسف والياں ہيں، اس نے عرض كيا: ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں كرسف كيا ہے ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ايك اللہ كا بندہ ہے جو پانچ سو برس ـ اور بعض كہتے ہيں تين سو برس ـ سے ساحل سمندر پر رات كو قيام اور دن كو روزہ ركھ رہا ہے، اس كے پاس سے ايك عورت گزرى جو اسے پسند آ گئى اور اس نے اسے فتنہ ميں ڈال ديا، اور وہ اپنے رب كى عبادت چھوڑ كر اپنے رب سے كفر كرنے لگا، اللہ عزوجل نے اس كى پچھلى نيكيوں كى وجہ سے اس كا تدارك كرتے ہوئے اسے بخش ديا.
اس نے عرض كيا: اے اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ميرى شادى كر ديں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ميں نے زينب بنت كلثوم الحميريہ كى شادى تيرے ساتھ اللہ كے نام و بركت سے كر دى “
اسے عقيلى نے ضعفاء الكبير ( 3 / 356 ) اور ابن قانع نے معجم الصحابہ ( 1274 ) ميں روايت كيا ہے.
اس روايت كى علت عطيہ بن بسر ميں ہے، عقيلى كہتے ہيں كہ لا يتابع عليہ، پھر انہوں نے اس قول كو امام بخارى كى طرف منسوب كيا ہے كہ: عطيہ بن بسر عن عكاف بن وداعۃ كى حديث نہيں ہے.
اور ابن حبان نے الثقات ( 5 / 261 ) ميں كہا ہے كہ: عطيہ بن بسر اہل شام ميں سے ہے، اور اس كى احاديث شاميوں ميں ہيں اس سے مكحول نے شادى كے بارہ ميں منكر متن روايت كيا ہے اور اس كى سند مقلوب ہے ” انتہى
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 2511 ) اور ( 6053 ).
2 ـ اور محمد بن راشد كے طريق سے عن مكحول عن ابى ذر سے بھى اسى طرح كى روايت ہے ليكن اس كے الفاظ يہ ہيں:
” شادى كر لو وگرنہ تم مذبذببين ميں سے ہو “
اسے عبد الرزاق نے المصنف ( 6 / 171 ) ( 10387 ) اور مسند احمد ( 5 / 163 ) اور ابن الجوزى نے العلل المتناھيۃ ( 2 / 118 ) ميں نقل كيا ہے.
اس كى علت يہ ہے كہ مكحول كا شيخ اور استاد مجھول ہے جو كہ عطيہ بن بسر الھلالى ہے جو دوسرى روايت ميں مذكور ہے.
ليكن محمد بن راشد كے بارہ ميں ائمہ كى كلام صحيح ہے اور اسے ثقہ كہا ہے، ديكھيں: تھذيب التھذيب ( 9 / 160 ).
3 ـ معاويہ بن يحيى عن سلمان بن موسى عن مكحول عن غفيف بن الحارث عن عطيہ بن بسر المازنى كے طريق سے ہے.
اسے ابن ابى العاصم نے الآحاد و المثانى ( 4 / 195 ) ميں اور ابو يعلى نے مسند ابو يعلى ( 12 / 260 ) ميں اور بحشل نے تاريخ واسط ( 201 ) ميں اور ابن حبان نے المجروحين ( 3 / 3 ) ميں اور طبرانى نے المعجم الكبير ( 18 / 85 – 86 ) ميں اور العقيلى نے الضعفاء الكبير ( 3 / 356 ) ميں اور بيھقى نے شعب الايمان ( 4 / 381 ) ميں اور ابن اثير نے اسد الغابۃ ( 4 / 43 ) ميں نقل كى ہے.
اور ابو نعيم كے ہاں معجم الصحابۃ ( 4961 ) ميں اس سے ذرا مختلف ہے، ليكن اس كى علت ايك ہى ہے وہ يہ كہ معاويہ بن يحي الصدفى ہى ہے تھذيب التھذيب ( 10 / 220 ) ميں درج ہے:
ابن معين كہتے ہيں ھالك ليس بشيئ، اور ابو زرعہ كہتے ہيں يہ قوى نہيں، اس كى احاديث ايسے ہيں كہ يہ مقلوب ہيں.
اور ابن ابى حاتم اسے ضعيف الحديث اور اس كى حديث ميں انكار كہتے ہيں.
اور ابو داود اسے ضعيف كہتے ہيں، اور نسائى نے بھى اسے ضعيف كہا ہے، اور ابو احمد بن عدى كہتے ہيں: اس كى عام روايات ميں نظر ہے.
اور ابن حبان نے المجروحين ( 2 / 335 ) ميں كہا ہے: اس ميں ميں معاويہ بن يحيى بہت زيادہ منكر الحديث ہے، اس كا حافظہ خراب ہو گيا تھا اور جو كچھ اس نے سنا ہے اس ميں وہم بيان كرتا ہے ” انتہى
اور دار قطنى نے بھى التعليقات على المجروحين ( 255 ) اور زيلعى نے تخريج الكشاف ( 2 / 439 ) ميں اور الھيثمى نے المجمع الزوائد ( 4 / 253 ) ميں بھى يہى علت بيان كى ہے.
حاصل يہ ہوا كہ اس حديث كے سارے طرق واہى اور ساقط ہيں، اور ايك دوسرے كى تقويت نہيں كرتے، كيونكہ اس ميں نكارت و اضطراب پايا جاتا ہے، اور متن بھى منكر ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
سوم:
يہ حديث:
” نكاح ميرى سنت ہے اور جس نے بھى ميرى سنت سے بے رغبتى كى تو وہ مجھ ميں سے نہيں “
اس كے الفاظ وہى ہيں جو ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيے ہيں كہ:
” نكاح ميرى سنت ہے، جو ميرى سنت اور طريقہ پر عمل نہيں كرتا وہ ميرى مجھ ميں سے نہيں، اور تم شادى كرو كيونكہ ميں تمہارے ساتھ دوسرى امتوں پر كثرت سے فخر كرونگا، اور جو مالدار ہے وہ شادى كرے، اور جس كے پاس مال نہيں تو وہ روزے ركھے، كيونكہ روزہ اس كے ليے ڈھال ہے “
سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 1846 ).
اس كى سند ميں عيسى بن ميمون راوى ضعيف ہے، امام بخارى رحمہ اللہ اسے منكر الحديث كہتے ہيں، اور ابن معين نے اس كى حديث كو ليس بشيئ كہا ہے ”
ديكھيں: ميزان الاعتدال ( 4 / 245 – 246 ).
اسى ليے بوصيرى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى سابقہ حديث كى تخريج ميں كہا ہے: اس كى سند ضعيف ہے، كيونكہ عيسى بن ميمون المدينى كے ضعف پر اتفاق ہے، ليكن اس حديث كا صحيح شاہد موجود ہے ” اھـ
مزيد ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 2383 ).
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات