ميں اس وقت محكمہ ڈاك ميں ملازم ہوں، محكمہ كا كپيوٹر آپريٹر ہوں، ڈاكخانہ اپنے پاس سيونگ اكاؤنٹ كے كھاتہ داروں كو سالانہ نفع اس اساس پر ديتا ہے كہ اس كے پاس رقم ركھنے والوں كا مال حكومتى نظام كے مطابق بنك ميں سرمايہ كارى كے ليے ديا جاتا ہے، اور بنك صرف حكومت كے ساتھ ہى حكومتى منصوبہ جات مكمل كرنے كا لين دين كرتا ہے يا پھر بنكوں اور سركارى محكموں كو قرض ديتا ہے، اور پھر وہ مال محدد كردہ نفع كے حساب سے واپس ڈاكخانہ ميں ہميں مل جاتا ہے، اور ہم بنك كے مقرر كردہ نفع كے مطابق رقم ركھنے والوں كو فائدہ ديتے ہيں، اور ڈاكخانہ اپنى كميش ركھتا ہے.
بہر حال ميرا كام يہ ہے كہ كھاتہ داروں كے مال كا حساب و كتاب اور اس كے جمع كرنے نكلوانے كے چيك اور واؤچر كمپيوٹر ميں فيڈ كرنا ہے، جس كے مطابق ہم ہر برس جولائى ميں كھاتہ داروں كے اكاؤنٹ ميں فائدہ جمع كرتے ہيں، اور اس كمپيوٹر كو اپنى دفترى كام ميں بھى مثلا كھاتہ داروں كا حساب چيك كرنے ميں بھى استعمال كرتے ہيں، تو كيا ميں سود كا لين دين لكھنے والوں ميں تو شامل نہيں ہوتا، اور كيا ڈاكخانہ كے فوائد حلال ہيں يا حرام ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہم قرض نہيں ديتے، الحمد للہ سيونگ ميں سے ہى ڈاكخانہ كا نوے فيصد خرچ ہوتا ہے، تو كيا ميں اپنى ملازمت ترك كردوں يا كہ ميں كسى اور قسم اور دفتر ميں منتقل ہو جاؤں، يا مجھ پر كوئى حرج نہيں ؟
سيونگ اكاؤنٹ ميں شراكت اور كام كرنے كا حكم
سوال: 97896
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
دو چيزوں كى بنا پر سيونگ اكاؤنٹ نامى اكاؤنٹ ميں رقم ركھنى حرام ہے:
پہلى:
يہ ايسا معاہدہ ہے جس ميں راس المال پر فكس تناسب سے نفع ديا جاتا ہے، اور پھر راس المال كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت بھى ہوتى ہے.
جو درحقيقت فائدہ پر قرض دينا ہے، اور علماء كرام كا اجماع ہے كہ ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے، اور يہاں قرض دينے والا كھاتہ دار ہے، اور قرض لينے والا اس اكاؤنٹ كو كھولنے والا ( يعنى ڈاكخانہ ) ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور ہر وہ قرض جس ميں زيادہ ہونے كى شرط لگائى جائے وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: سب علماء اس پر جمع ہيں كہ ادھار دينے والا جب ادھار لينے والے پر يہ شرط ركھے كہ وہ زيادہ دےگا، يا ہديہ دےگا، اور اس شرط پر رقم ادھار دے تو اس رقم سے زيادہ لينا سود ہے.
اور بيان كيا جاتا ہے كہ: ابى بن كعب، اور ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم نے ہر اس قرض سے منع كيا ہے جو نفع لائے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 6 / 436 ).
دوسرى:
ڈاكخانہ اس كے پاس رقم جمع كرانے والوں كى رقم سودى بنكوں ميں ركھتا اور اس پر فكس اور معلوم تناسب سے نفع لے كر اس كا كچھ حصہ كھاتہ داروں ميں تقسيم كرتا ہے، اور يہ ايك اور سودى معاہدہ ہے جو ڈاكخانہ كر رہا ہے.
تو اس طرح پہلى صورت ميں ڈاكخانہ خود سود پر قرض ليتا ہے، اور دوسرى صورت ميں ڈاكخانہ سود پر قرض ديتا ہے، اور ان معاملات كى جانچ پركھ كرنے والے شخص پر اس كے يقينى حرام ہونے ميں كسى بھى قسم كا كوئى شك و شبہ نہيں رہتا، اور بلا شبہ اس ميں لكھنے، يا گواہى دينے يا كسى بھى صورت ميں اس كى معاونت كرنے كى ملازمت وغيرہ كرنا حرام ہے.
موسوعۃ فتاوى ازھر ميں درج ہے:
" شيخ الازہر جناب جاد الحق على جاد الحق رحمہ اللہ كے سامنے درج ذيل سوال پيش كيا گيا:
بنك يا كمپنيوں كو دى گئى رقم يا اس ميں سرمايہ كارى كردہ رقم پر بنك يا كمپينوں كى جانب سے ديے جانے والے فوائد كے متعلق كيا حكم ہے، آيا يہ سود شمار ہوتا ہے يا نہيں ؟
اس كے جواب ميں سود كى حرمت كے بيان ميں وارد شدہ دلائل اور نصوص بيان كرنے كے بعد درج ذيل كلام درج ہے:
" قرآن و سنت كى ان اور ان كے علاوہ دوسرى نصوص سے سود كى تمام قسموں كى حرمت ثابت ہوتى ہے، چاہے وہ اصل قرض پر زيادہ رقم لينے كى شكل ميں ہو، يا پھر قرض كى تاخير كے بدلے زيادہ رقم حاصل كى جائے، اور اس كى ادائيگى ميں تاخير ہونے پر، يا پھر معاہدہ ميں راس المال كى ضمانت كے ساتھ اس زيادہ فوائد كى شرط ركھى جائے، جب ايسا ہو اور جن فوائد كے متعلق دريافت كيا گيا ہے وہ بنكوں ميں ركھى جانے والى رقم كے معاہدہ جات ميں ہو، اور ڈاكخانہ اور بنكوں ميں سيونگ اكاؤنٹ ميں ركھى جانے والى رقم كے معاہدہ جات ميں، اور يہ رقم فائدہ پر قرض كے باب ميں ہو تو يہ زيادہ سود ( ربا الفضل ) يا فقھاء كے نام ميں زيادہ سود ہے جو كہ دين اسلام ميں قرآنى آيات اور احاديث نبويہ كى نصوص، اور مسلمانوں كے اجماع سے حرام ہے.
كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اس كا لين دين كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى وہ اس كا تقاضہ كر سكتا ہے، كيونكہ اس نے اللہ تعالى كے سامنے جواب دينا ہے كہ اس نے مال كہاں سے كمايا، اور كيسے خرچ كيا.
جيسا كہ ترمذى كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
روز قيامت اس وقت تك آدمى كے قدم نہيں ہل سكتے جب تك اس سے اس كى عمر كے متعلق سوال نہ كر ليا جائے كہ اس نے عمر كيسے بسر كر، اور اس كے عمل كے متعلق سوال نہ كر ليا جائے كہ اس نے كيا عمل كيا، اور اس كے مال كے متعلق دريافت نہ كر ليا جائے كہ اس نے كہاں سے كمايا اور كہاں خرچ كيا، اور اس كے جسم كے متعلق دريافت نہ كر ليا جائے كہ اس نے اس كے ساتھ كيا كيا "
واللہ سبحانہ تعالى اعلم.
دوم:
سيونگ اكاؤنٹ كے كھاتہ داروں كا كمپيوٹر ميں حساب و كتاب ركھنا اور شامل كرنے كى ملازمت كرنا يہ سود لكھنے ميں شامل ہوتا ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كى گواہى دينے والے دونوں گواہوں پر لعنت كى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
اس ليے آپ پر اس عمل سے توبہ كرنا اور اس ملازمت كو جتنى جلدى ہو سكے ترك كر كے كسى اور محكمہ ميں منتقل ہونا جو سود سے دور ہو لازم اور ضرورى ہے، يا پھر آپ يہ كام بالكل ہى ترك كر ديں، تا كہ اس عظيم فتہ اور گناہ ميں شامل نہ ہوں.
اور آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ جو شخص بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ترك كرتا ہے اللہ تعالى اس كے بدلے ميں اسے اس بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے، اور جو شخص بھى اس كا تقوى اختيا كرتا ہے اللہ تعالى اسے اور بھى زيادہ ديتا ہے، اور اس پر انعام كرتا ہے، اور اسے روزى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے اللہ تعالى اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے كام كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 – 3 ).
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ان اعمال كى توفيق نصب فرمائے جن ميں خير و بھلائى اور ہدايت و كاميابى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب