سرمايہ كارى سند ( الف ) اور ( ب ) اور ( جيم ) كے ساتھ انعامى مقابلوں ميں شريك ہونے كا حكم كيا ہے ؟
سرمايہ كارى رسيدوں پر انعامى مقابلہ
سوال: 98152
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سودى بنكوں سے جارى كردہ ( الف ) اور ( ب ) اور ( جيم ) تينوں قسم كى سنديں حرام ہيں، اس سند اور رسيد كا معنى يہ ہے كہ فائدہ كے ساتھ ( يعنى سود پر ) قرص حاصل كيا گيا ہے، اور يہ تينوں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.
پہلى قسم ( الف ) والى سندوں كا گروپ اس طرح ہے كہ اس كا سود فيصد كے حساب سے ادا كرنا ہو گا، اور اس سود اور فائدہ كو رسيد اور سند كى اصل قيمت كے ساتھ ملا كر اضافہ كيا جائيگا حتى كہ دس برس كے بعد اس رسيد اور سند كى مدت ختم ہو جائے.
اور دو سرى قسم ( ب ) كے كئى ايك محدود فائدے اور سود ہيں، يہ ہر ماہ يا تين ماہ يا چھ ماہ كى مدت ميں ادا كيا جاتا ہے، يعنى بنك كے ساتھ جس طرح معاہد اور اتفاق ہوا ہو، اور راس المال بالكل اپنى اصل حالت ميں ہى باقى رہتا ہے اس ميں كوئى كمى نہيں ہوتى.
اور يہ دونوں قسميں حرام ہيں، اور يہ سود كے ساتھ مضمون قرض ہے، نہ كہ كسى چيز ميں مضاربت و مشاركت ہے، اور اگر يہ مضاربت بھى ہوتى تو بھى فاسد تھى.
كيونكہ شريعت اسى مضاربت و مشاركت كو مباح نہيں كرتى جس ميں مال والا اپنا مال مضمون ركھے، اور كام كرنے والے كو مال كا مالك محدود مبلغ ادا نہ كرے، اسلامى فقہ اكيڈمى كى مجلس كے فيصلہ ميں درج ہے، يہ قرار قطر ميں 8 ـ 13 ذوالقعدۃ 1423ھـ الموافق 11 – 16 جنورى 2003 ميں منعقد كردہ اجلاس طے پائى:
" يہ طے شدہ ہے كہ سود اور فائدہ كے ساتھ قرض كا معاہدہ شرعى مضاربت سے مختلف ہے، وہ اس طرح كہ نفع قرض دينے والا كا، اور خسارہ اسے قرض ميں ہوگا، ليكن مضاربت نفع ميں شراكت ہوتى ہے، اور اگر خسارہ ہو جائے تو بھى اٹھانا ہوتا ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" فروخت كردہ چيز كى ضمان ہے "
اسے احمد اور اصحاب سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
يعنى جو كچھ اس كا فائدہ اور نمو وغيرہ حاصل ہو گا وہ اس كے ليے حلال ہے جو تلف و ہلاك اور عيب كا متحمل ہو گا.
اس حديث سے فقھاء كرام نے مشہور فقھى قاعدہ استنباط كيا ہے:
" الغنم بالغرم "
جس طرح كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نفع سے منع كيا ہے جس كى ضمانت نہ ہو "
اسے اصحاب السنن نے روايت كيا ہے.
فقھاء كرام كا كئى صديوں سے اجماع ہے، اور سب مذاہب ميں ہے كہ:
مضاربت ميں سرمايہ كارى كے منافع كى تحديد كرنى جائز نہيں، اور اسى طرح كمپنيوں ميں مقرر رقم يا سرمايہ كارى كرنے والے كى رقم ـ يعنى راس المال ـ سے تناسب مقرر كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں اصل كى ضمان ہے، اور يہ صحيح شرعى دلائل كے مخالف ہے، اور نفع اور خسارہ جو شراكت اور مضاربت كا تقاضا ہے اس كو محدود كرنے كا باعث ہے.
اور يہ اجماع ثابت اور مقرر شدہ ہے، كيونكہ اس كى كوئى بھى مخالفت منقول نہيں، اسى بارہ ميں ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنى كتاب " المغنى 3 / 34 "ميں لكھتے ہيں:
" سب اہل علم اس پر جمع اور متفق ہيں كہ جب شراكت اور مضاربت ميں دونوں يا كسى ايك كى جانب سے اپنے ليے معلوم رقم اور درہم كى شرط ركھى تو مشاركت اور مضاربت باطل ہو جائيگى.
اكيڈمى اجماع كے ساتھ يہ فيصلہ كرتى ہے اور مسلمانوں كو حلال كمائى كمانے كى نصيحت كرتى ہے، اور انہيں چاہيے كہ وہ اللہ تعالى اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كرتے ہوئے حرام كمائى سے اجتناب كريں " انتہى.
اور ( جيم ) گروپ كى سرمايہ كارى سندوں كا فائدہ محدد نہيں، اسے حق ہے كہ جب چاہے وہ اس كى قيمت واپس لے سكتا ہے، اور وقفہ وقفہ سے ان سندوں كے نمبر قرعہ اندازى ميں شامل كيے جاتے ہيں، اور يہ قرعہ اندازى شراكت دار كے ساتھ معاہدہ ميں مشروط ہے.
وہ اس طرح كہ اگر قرعہ اندازى نہ ہوتى تو اس پروگرام ميں سنديں داخل نہ ہوتيں، اور يہ چيز اس كے حكم باقى قسموں كىطرح اسے بھى سودى بنا ديتى ہے، يہ بھى اس قاعدہ " ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے " ميں شامل ہوتى ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مصرى نيشنل بنك سرمايہ كارى كى سند ( جيم ) جارى كرتا ہے، اور يہ سنديں اس پر مشتمل ہيں كہ بنك سے خريدى جاتى ہيں، اور اس پر ماہانہ قرعہ اندازى كى جاتى ہے، جو سند قرعہ اندازى ميں نكل آئے اسے ايك بڑى رقم انعام ميں دى جاتى ہے، اور خريدار كو حق ہے كہ وہ اصل سند واپس كر كے كسى بھى وقت اس كى قيمت حاصل كرسكتا ہے، شريعت كے مطابق انعام ميں ملنے والى بڑى رقم كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا بيان كيا گيا ہے تو يہ معاملہ جوا اور قماربازى ہے، جو كہ كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).
اس ليے جو بھى ايسا معاملہ كر رہا ہے اسے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرتے ہوئے اس معاملہ كے لين دين سے اجتناب كر كے اس سے حاصل كردہ آمدنى سے چھٹكارا حاصل كر لينا چاہيے، اميد اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا " انتہى.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 301 – 302 ).
اس كى مكمل تفصيل آپ سوال نمبر ( 72413 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
اسلامى فقہ اكيڈمى كى مجلس كى جانب سے سرمايہ كارى سندوں كى ان تينوں قسموں كى حرمت كى قرار صادر ہو چكى ہے جسے ذيل ميں پيش كيا جاتا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحيم
رب العالمين و الصلاۃ و السلام على سيدنا محمد خاتم النبيين و على آلہ و صحبہ:
سندوں كے متعلق قرار نمبر ( 62 / 11 / 6 ):
اسلامى فقہ اكيڈمى كا سعودى عرب كے شہر جدہ ميں منعقدہ اجلاس جو 17 – 23 شعبان 1410هـالموافق 14 – 20 مارچ 1990 م تك جارى رہا ميں يہ طے كيا گيا:
20 – 24ربيع الثانى 1410 هـ ( 20 – 24 / 10 / 1989 م ) كو ماليہ ماركيٹ كننونشن رباط ميں اسلامى فقہ اور اسلامى ريسرچ انسٹيوٹ اور بنك اسلامى كے تعاون اور وزات شؤن اسلاميۃ مغرب كے زير نگرانى ہونے والے اجلاس ميں جو بحث اور توصيات پيش ہوئى تھيں ان كو ديكھنے اور مطالعہ كرنے، اور اس كنونشن ميں پيش كردہ نتائج كو ديكھنے، اور يہ معلوم كرنے كے بعد كہ سرمايہ كارى سند كو جارى كرنے والے پر لازم ہے كہ وہ اس سند كے حامل كو استحقاق كے وقت نامى قيمت ادا كرنے كے ساتھ اتفاق كردہ فائدہ بھى دے جو اس سند كى نامى قيمت كى طرف منسوب ہے، يا پھر مشروط نفع دے چاہے وہ انعامات كى شكل ميں ہوں، يا پھر قرعہ اندازى كے ذريعہ يا مخصوص كردہ مبلغ يا پھر ڈسكاؤنٹ.
مجلس يہ فيصلہ كرتى ہے كہ:
1 – وہ سنديں جو فائدہ ( سود ) كے ساتھ مبلغ ادا كرنے كو لازم كرتى ہيں يا مشروط نفع ديتى ہيں ان كا جارى كرنا، يا خريدنا، يا لين دين كرنا شرعا حرام ہے، كيونہ يہ سودى قرض ہے، چاہے وہ اسے جارى كرنے والا كوئى خاص ادارہ ہو، يا پھر وہ عام ادارہ حكومت كے ساتھ مرتبط ہو، اور اسے سند يا سرمايہ كارى اسٹام يا رسيد وغيرہ كا نام دينا كوئى اثر نہيں ركھتا، يا اسے لازم كردہ سودى فائدہ يا نفع يا كميشن يا واپس لوٹايا جائے كوئى بھى نام اثر نہيں.
2 – زرد كوپن والى سنديں اور رسيديں بھى حرام ہيں كيونكہ انہيں قرض شمار كيا جاتا ہے، اور اس كى فروخت اس كى نامى قيمت سے كم پر ہوتى ہے، اور اس كا مالك اس كے ريٹ كى كمى كے اعتبار سےاس ميں فرق سےمستفيد ہوتا ہے.
3 – اسى طرح انعام والى رسيد اور سند بھى حرام ہيں كيونكہ يہ ايسا قرض ہے جس ميں سب قرض والوں يا بعض كے اعتبار سے نفع يا زيادہ شرط ہے، نہ كہ تعيين پر، اس پر مستزاد يہ كہ اس ميں قمار بازى اور جوے كا شبہ بھى ہے.
4 – حرام رسيد اور سندوں كے بدلے ـ جارى كرنے يا خريد و فروخت يا لين دين كرنا ـ وہ سنديں اور رسيديں يا اسٹام جو كسى بھى معين منصوبہ يا سرمايہ كارى كام ميں مضاربت كى اساس پر قائم ہو، وہ اس طرح كہ اس كے مالكان كو كوئى فائدہ نہ ہو، يا پھر مقرر نفع نہ ہو، بلكہ ان كے ليے اس منصوبہ كے منافع سے اس رسيد اور سند كے حساب سے نسبت ركھى گئى ہو، اور انہيں منافع اس وقت ہى حاصل ہو جب حقيقتا منافع آئے.
اس كے متعلق قرار نمبر ( 5 ) جو اس اكيڈمى كے چھوتے اجلاس ميں قرضہ كى رسيد اور سندوں كےمتعلق جارى ہوئى ہے اس سے استفادہ كيا جا سكتا ہے" انتہى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات