میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جس وقت میزان میں اعمال کو وزن کر دیا جائے گا تو پھر کیا ہو گا، کیا نیکیاں زیادہ ہونے کی صورت میں جنت چلا جائے گا؟ یا پھر گناہوں سے مکمل پاک ہونے کے لیے پہلے جہنم میں جائے گا پھر جنت میں؟
جس کی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں گی تو وہ عذاب سے بچ کر جنت میں چلا جائے گا۔
سوال: 98964
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آخرت کے معاملات میں میزان پر ایمان لانا ضروری ہے اس میزان یعنی ترازو میں بندے کے اعمال وزن کیے جائیں گے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ
ترجمہ: اور ہم روز قیامت انصاف کے ترازو رکھیں گے اور کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہو گی اور اگر کسی کا رائی کے دانہ برابر بھی عمل ہو گا تو وہ بھی سامنے لائیں گے اور حساب کرنے کو ہم کافی ہیں۔ [الانبیاء: 47]
امام طحاوی رحمہ اللہ عقیدہ طحاویہ میں لکھتے ہیں:
"ہم قیامت کے دن دوبارہ جی اٹھنے، اعمال کے بدلے، پیشی، حساب، نامہ اعمال کو پڑھنے، ثواب اور عذاب سمیت پل صراط اور ترازو پر ایمان رکھتے ہیں۔" ختم شد
میزان اور ترازو کا مرحلہ حساب کے بعد تاہم پل صراط سے پہلے ہو گا:
امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: جس وقت حساب مکمل ہو جائے گا تو اس کے بعد اعمال کا وزن ہو گا؛ کیونکہ وزن کا تعلق بدلے سے ہے اسے حساب کے بعد ہونا چاہیے، اس لیے کہ حساب اعمال کے اقرار کے بارے میں ہے جبکہ وزن اعمال کی مقدار کے متعلق ہو گا تا کہ اسی کے مطابق بدلہ دیا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا
ترجمہ: اور ہم روز قیامت انصاف کے ترازو رکھیں گے اور کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہو گی ۔ [الانبیاء: 47]
اسی طرح فرمایا:
فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ (9) وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ (10) نَارٌ حَامِيَةٌ
ترجمہ: تو جس کا ترازو وزنی ہوا تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا، اور جس کا ترازو ہلکا ہو گا تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے، اور آپ کو کس نے بتلایا کہ وہ کیا ہے؟ وہ تو دہکتی ہوئی آگ ہے۔[القارعۃ: 6 – 11] " ختم شد
"التذكرة" ص (359)
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایسی کوئی صریح نص نہیں ہے جس میں آخرت کے احوال کی ترتیب ذکر کی گئی ہو، یہ اہل علم کے اجتہادات ہیں؛ چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ نے علمائے کرام سے جو ترتیب نقل کی ہے وہ زمانے کے اعتبار سے مناسب معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ پہلے اللہ تعالی ہر شخص کا محاسبہ کرے گا اور اس سے اعمال کا اقرار کروائے گا، پھر اس کے اعمال تولنے کے لیے ترازو لگا یا جائے گا تا کہ محاسبہ کے نتائج سامنے آئیں اور اللہ تعالی محاسبہ کے نتائج کو ترازو میں اس کے سامنے بھی واضح فرما دے گا۔
مزید کے لیے دیکھیں: الحياة الآخرة ، از عواجی: (3/1169)
دوم:
اعمال کا وزن ہونے کے بعد لوگو ں کی تین قسمیں بن جائیں گی:
پہلی قسم:
نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں گی، یہ شخص نیک بخت اور کامیاب ہو گا: فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ
ترجمہ: تو جس کا ترازو وزنی ہوا تو یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، اور جس کا ترازو ہلکا ہو گیا تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا اور یہ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 102، 103]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ (9) وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ (10) نَارٌ حَامِيَةٌ
ترجمہ: تو جس کا ترازو وزنی ہوا تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا، اور جس کا ترازو ہلکا ہو گا تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے، اور آپ کو کس نے بتلایا کہ وہ کیا ہے؟ وہ تو دہکتی ہوئی آگ ہے۔[القارعۃ: 6 – 11]
دوسری قسم:
جس کی برائیاں نیکیوں سے زیادہ ہوں اور یہ شخص مسلمان ہوا تو جہنم میں داخل ہو گا اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر جنت میں جائے گا، لیکن اگر یہ شخص کافر ہوا تو پھر وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا، جیسے کہ سورت المؤمنون کی گزشتہ آیات میں واضح ہے۔
تیسری قسم:
جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، یہ اصحاب الاعراف ہو ں گے، یہ لوگ جنت اور جہنم کے درمیان ایک جگہ پر ہوں گے، اور اہل جنت و جہنم کو دیکھیں گے، جیسے کہ ان کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ترجمہ: اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی پیشانی کے نشانات سے پہچانتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت کو آواز دیں گے کہ : "تم پر سلامتی ہو" یہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل تو نہ ہوئے ہوں گے البتہ اس کی امید ضرور رکھتے ہوں گے [46] اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گی تو کہیں گے: "پروردگار! ہمیں ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا" [الاعراف: 46 ، 47]
اعراف مقام کے لوگوں کو بھی آخر کار جنت میں داخلہ مل جائے گا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (2/289) میں لکھتے ہیں:
"جس وقت اللہ تعالی نے جنتی اور جہنمی لوگوں کی باہمی گفتگو کا ذکر فرمایا تو یہاں متنبہ کیا ہے کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک رکاوٹ ہے جو کہ جہنمیوں کو جنت میں آنے سے روکتی ہے ۔۔۔ ابن جریرؒ کہتے ہیں: اعراف ، عرف کی جمع ہے۔ عربی زبان میں ہر بلند جگہ کو عرف کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مرغے کی کلغی کو بھی عرف کہتے ہیں کیونکہ وہ بلند ہوتی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت میں منقول ہے کہ: اعراف، جنت اور جہنم کے درمیان ایک ٹیلہ ہے، یہاں جنت اور جہنم کے بیچ گناہ گار لوگوں کو روکا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی ایک اور روایت میں منقول ہے کہ : اعراف سے مراد جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہے۔ یہی موقف ضحاک اور دیگر علمائے تفسیر نے بیان کیا ہے۔
جبکہ سدی کا کہنا ہے کہ: اعراف کو اعراف اس لیے کہا گیا ہے کہ اعراف والے لوگ اپنے پاس آنے والے لوگوں کو پہچان لیں گے۔
تاہم مفسرین کرام کی اصحاب اعراف کے بارے میں مختلف عبارتیں ہیں کہ یہ کون لوگ ہوں گے۔ البتہ یہ تمام عبارتیں ایک مشترکہ مفہوم رکھتی ہیں کہ اصحاب اعراف ایسی قوم ہے کہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہیں۔ اس بات کی صراحت حذیفہ، ابن عباس، ابن مسعود اور دیگر سلف و خلف اہل علم نے کی ہے۔۔۔ ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے یعقوب نے بتلایا انہیں ہشیم نے کہ حصین نے عامر شعبی سے کہ انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اصحاب اعراف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہو گئیں ہیں، ان کی برائیوں نے انہیں جنت میں جانے نہیں دیا جبکہ ان کی نیکیوں نے ان کو جہنم میں جانے سے روک دیا، تو یہ لوگ وہاں دیوار پر روک دئیے جائیں گے، حتی کہ اللہ تعالی ان میں فیصلہ فرما دے۔۔۔" ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بسا اوقات انسان اپنے گناہوں کے ساتھ اتنی نیکیاں بھی کر لیتا ہے جو ان گناہوں کے برابر ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں جہنم سے بچ جاتا ہے لیکن جنت میں نہیں جا پاتا اور اصحاب اعراف میں شامل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ان کو بھی آخر کار جنت میں داخل کر دیا جائے گا لیکن یہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے جن کے قریب جنت کر دی جائے گی؛ کیونکہ یہ لوگ خشیتِ الہی اور انابت کے بغیر آئیں گے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى (16/177)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میں نے کسی سے سنا ہے کہ اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہے اور اس پر لوگ کئی سال ٹھہرے رہیں گے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
قیامت کے دن لوگوں کی تین قسمیں بن جائیں گی:
ایک قسم وہ ہو گی جن کی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں گی تو یہ لوگ عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔ دوسری قسم کے گناہ نیکیوں سے زیادہ ہوں گے تو یہ اپنے گناہوں کے برابر عذاب جھیلیں گے اور آخر کار جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ ایک تیسری قسم بھی ہو گی، ان لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی یہ لوگ اہل اعراف ہیں، اہل جنت یا اہل جہنم نہیں۔ یہ لوگ ایک بلند الگ تھلگ جگہ پر ہوں گے اور جنت و جہنم دونوں کو دیکھیں گے، وہاں انہیں کچھ عرصہ ٹھہرنا پڑے گا ؛ اس کی مقدار اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ تاہم آخر کار جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ اللہ تعالی کے کامل عدل کی علامت ہے کہ ہر انسان کو اس کا حق دیا ہے، جس کی نیکیاں زیادہ اسے جنت میں اور جس کی برائیاں زیادہ وہ پاک ہونے تک جہنم میں ، اور جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوئیں تو وہ اہل اعراف میں شامل ہو گا، لیکن اعراف دائمی ٹھکانہ نہیں ہو گا، دائمی ٹھکانہ جنت یا جہنم ہی ہیں۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اہل جنت میں شامل فرمائے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (14/16)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب