ایسے مومن کا کیا بنے گا جس نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ گناہ کیے ہوئے ہوں؟ کیا اللہ تعالی اسے معاف کر دے گا یا عذاب دے گا؟ اور اگر عذاب دے گا تو کتنا عذاب ہو گا؟
ایسے اہل ایمان جو ایمان کی حالت میں تو فوت ہوں لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں کفر و شرک کے علاوہ ایسے گناہ کر رکھے ہوں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے تو ان کی ممکنہ دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
پہلی صورت: اپنی زندگی میں ہی انہوں نے توبہ کر لی ہو، چنانچہ اگر انہوں نے اپنی زندگی میں ہی سچی توبہ کر لی ہو تو اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرمائے گا، اور توبہ قبول ہونے کے بعد انسان ایسے ہی ہو جاتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ لہذا انہیں آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہیں دیا جائے، بلکہ اللہ تعالی ایسے اہل ایمان کی عزت افزائی فرماتے ہوئے ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دے گا۔
دوسری صورت: ایسے مومن جو فوت ہو جائیں لیکن فوت ہونے سے پہلے توبہ نہ کر پائیں، یا توبہ تو کر لیں لیکن ان کی توبہ ناقص ہو ؛ توبہ کی شرائط پوری نہ ہوں ، یا توبہ تو کریں لیکن اس گناہ کی توبہ قبول نہ کی جائے تو ایسی صورت میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں جو چیز ثابت ہے، اور سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ موحد نافرمانوں کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ وہ مومن ہوں گے جن کی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہو ں گی، اور ان گناہوں سے زیادہ وزنی ہوں گی تو ایسے مومنوں کو اللہ تعالی معاف فرما دے گا، اور ان کی غلطیوں سے درگزر فرما کر انہیں جنت میں داخل فرما دے گا۔ ان کے جسموں کو اللہ تعالی کے فضل و کرم کی وجہ سے آگ نہیں چھوئے گی، جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آ جائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا ، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ ( فرشتوں، انبیاء، اور تمام جن و انس سب ) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2441) اور مسلم : (2768) نے روایت کیا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: پس جس کا میزان وزنی ہوا تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [الاعراف: 8]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ
ترجمہ: پس جس کا میزان وزنی ہوا تو وہی پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔ اور جس کا میزان ہلکا ہوا تو اس کا ٹھکانہ ھاویہ ہو گا۔[القارعہ: 6 - 8]
دوسری قسم: یہ ایسے لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہو جائیں گی، تو ان کی برائیاں انہیں جنت میں جانے سے روک دیں گی، لیکن نیکیاں انہیں جہنم میں جانے سے بچا لیں گی، اس قسم کے لوگ اصحاب الاعراف ہوں گے، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اپنی مرضی کے مطابق جنت اور جہنم کے درمیان ٹھہرائے رکھے گا، پھر انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی، جیسے کہ اللہ تعالی نے اہل جنت کے جنت میں داخل ہو جانے اور اہل جہنم کے جہنم میں چلے جانے کے بعد فرمایا: وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ (46) وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (47) وَنَادَى أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (48) أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ترجمہ: اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی پیشانی کے نشانات سے پہچانتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت کو آواز دیں گے کہ: ’’ تم پر سلامتی ہو‘‘ یہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل تو نہ ہوئے ہوں گے البتہ اس کی امید ضرور رکھتے ہوں گے ۔ [46] اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گی تو کہیں گے: ’’پروردگار! ہمیں ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا‘‘ [47] اور یہ اہل اعراف کچھ لوگوں کو ان کی پیشانیوں سے پہچان کر آواز دیں گے: (کہ آج) نہ تمہاری جمعیت تمہارے کچھ کام آئی اور نہ وہ چیزیں جن کے بل پر تم اکڑا کرتے تھے [48] کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ نہیں جن کے متعلق تم قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ انہیں اپنی رحمت سے کچھ بھی نہ دے گا’’(انہیں تو آج یہ کہا گیا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ تم غم زدہ ہی ہو گے‘‘ [الاعراف: 46 - 49]
تیسری قسم: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی سے ملاقات تک کبیرہ گناہوں برائی اور بے حیائی کے مرتکب رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیکیاں گناہوں سے کم ہو گئیں اور وہ اپنے گناہوں کی مقدار کے برابر جہنم میں سزا پائیں گے، چنانچہ کچھ کو ٹخنوں تک آگ پہنچے گی، تو کچھ کو نصف پنڈلی تک، اور کچھ ایسے ہوں گے جو گھٹنوں تک آگ میں ہوں گے، ایسے مومن بھی ہوں گے کہ جن کے صرف وہ حصے آگ سے بچے رہیں گے جن پر سجدوں کے اثرات ہوں گے، یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے بارے میں جہنم سے نکلنے کی سفارش کی جائے گی، تو پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے بارے میں شفاعت کریں گے، ایسے ہی دیگر انبیائے کرام، فرشتے اور اہل ایمان سمیت جس کی بھی اللہ تعالی عزت افزائی کرنا چاہے گا اسے شفاعت کا موقع فراہم کرے گا۔ تو ان گناہ گاروں میں جس کا ایمان زیادہ، اور گناہ کم ہوں گے تو اسے اتنا ہی کم عذاب ملے گا اور کم مدت جہنم میں رہے گا، اور جہنم سے جلدی نکل جائے گا۔ اور دوسری طرف جس شخص کا ایمان کمزور ہو گا، گناہ زیادہ ہوں گے تو اسے عذاب زیادہ ملے گا اور جہنم میں زیادہ دیر رہے گا ، اللہ تعالی ہم سب کو سلامتی اور عافیت عطا فرمائے۔
آخرت میں نافرمانوں کا یہی حالت ہو گی۔
جبکہ دنیا میں رہتے ہوئے جب تک کوئی ایسا عمل نہ کریں جو انہیں دین اسلام سے خارج کر دے تو وہ مومن ہیں لیکن ان کا ایمان ناقص ہے، سلف صالحین کا اس موقف پر اجماع ہے، اور اس کے لیے انہوں نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو دلیل بنایا ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:
فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ترجمہ: ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اس کا تصفیہ بھلائی کے ساتھ ہونا چاہیے۔[البقرۃ: 178] تو یہاں پر اللہ تعالی نے قاتل کو مقتول کے وارثین کا بھائی قرار دیا ہے، اور یہ اخوت ایمانی اخوت ہے جس سے معلوم ہوا کہ قاتل کافر نہیں ہوا، حالانکہ مومن کو قتل کرنا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ . إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
ترجمہ: اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کرا دو اور انصاف کیا کرو۔ کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ [9] مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ [الحجرات: 9 - 10] تو یہاں پر بھی دو باہمی گتھم گتھا ہونے والے مسلمانوں کے گروہوں کو اللہ تعالی نے مومن قرار دیا ہے، حالانکہ باہمی قتال کبیرہ ترین گناہ ہے، بلکہ اصلاح کروانے والوں کے ساتھ ان سب کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب شخص شرک اور کفر کی حد تک نہیں پہنچتا، بلکہ کبیرہ گناہ کے باوجود بھی وہ مومن کہلائے گا، اور اس پر ایمان والے سب احکامات لاگو ہوں گے، تاہم ایمان ناقص درجے کا ہو گا۔
اس وضاحت سے تمام کی تمام شرعی نصوص جمع ہو جاتی ہیں، اور ان میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔
واللہ اعلم
مزید کے لیے مطالعہ کریں: أعلام السنة المنشورة (212 ) اور شرح العقيدة الواسطية ، از شیخ ابن عثیمین (2 / 238 )