ميں چاليس سالہ طلاق يافتہ ايك حسب و نسب والى عورت ہوں، ميں نے سابقہ تجربہ سے بہت سخت سبق سيكھا ہے كيونكہ اختيار ظاہر كو ديكھ ہوا نہ كہ دين و اخلاق كو، اب ميرے ليے ايك دين و اخلاق والا رشتہ آيا ہے اور لوگ بھى اسےنيك و صالح كہتے ہيں، ليكن وہ شادى شدہ ہے اور اس بيوى ہمارے خاندان كى سہيلى ہے.
اسى طرح معاشرتى طور پر بھى وہ ميرے خاندان سے كم درجہ كا شخص ہے، معاشرے كى نظر سے ميں اسے قبول كرنے سے خوفزدہ ہوں كہ اگر وہ رشتہ قبول كر لوں تو معاشرے ميں باتيں ہونگى، اور اسى طرح بيوى كى نظروں ميں بھى، ميں مصر سے تعلق ركھتى ہوں، مولانا صاحب آپ كو علم ہے كہ مصرى معاشرے ميں دوسرى بيوى كے بارہ ميں كيا نظريات ہيں.
ميں نے نماز استخارہ كے بعد راحت محسوس كى ہے اور قريب ہے كہ بھائى سے يہ رشتہ قبول كرنے كا كہہ دوں، ليكن جب معاشرے كو ديكھتى ہوں اور لوگوں كے سوالات ذہن ميں آتے ہيں كہ اپنے سے كم درجہ كے خاندان كا رشتہ كيوں قبول كيا، اور ايك بيوى اور اس كى اولاد سے كس طرح خاوند چھين ليا حالانكہ وہ ميرے خاندان كى سہيلى بھى ہے تو ميرا سينہ تنگ ہو جاتا ہے.
اس شخص نے ميرا رشتہ صرف مسلمان لڑكيوں كى عفت و عصمت محفوظ كرنے كے ليے طلب كيا ہے كسى مالى لالچ كى خاطر نہيں، خاص كر جب لڑكى نيك و صالح ہو، بلكہ وہ تو دوسروں كو بھى دوسرى شادى كى ترغيب دلاتا ہے تا كہ معاشرہ اور عورتيں عفت اختيار كريں، اس كى گواہى ميرا بھائى بھى ديتا ہے، اور پھر ميں كوئى جوان اور خوبصورت بھى نہيں كہ كوئى اور رشتہ آ جائے، وہ چھوٹى عمر كى كسى خوبصورت عورت سے بھى رشتہ كر سكتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا اگر ميں اس رشتہ كو ٹھكرا دوں تو كيا مجھ پر كوئى گناہ ہوگا، اور اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے آيا ميں يہ رشتہ قبول كر لوں يا پھر صبر كروں ہو سكتا ہے اللہ كوئى اور خاوند مہيا كر دے ؟
كيا دوسرى بيوى بننا قبول كر لے يا كہ صبر سے كام لے
سوال: 99264
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بلاشك و شبہ بہت سارے اسلامى معاشرے جن ميں مصرى معاشرہ بھى شامل ہے ايك سے زائد شادياں كرنے كو پہلى بيوى سے خيانت كى نظر سے ديكھتے ہيں، يا پھر خاوند اور دوسرى بيوى كے ليے اسے عيب تصور كيا جاتا ہے، حالانكہ اس نظريہ اور تصور كے غلط ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں كيونكہ يہ نظريہ اور تصور شريعت مطہرہ كے مخالف ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو آدمى كے ليے چار بيوياں ركھنا مباح كرتے ہوئے فرمايا ہے:
تو تم كو جو عورتيں اچھى لگيں دو دو تين تين اور چار چار سے نكاح كرو النساء ( 3 ).
اور پھر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اللہ تعالى كے حكم پر اعتراض كرنا ہى ممكن نہيں، يا پھر اس كے ليے يہ گمان كرنا بھى جائز نہيں كہ يہ ظلم و زيادتى اور شرعى حكم غلط ہے.
اس ليے ہم آپ كے اس قول كى موافقت نہيں كرتے آپ نے كہا ہے:
” ميں كس طرح ايك خاوند كو اس كى بيوى اور بچوں سے چھين سكتى ہوں ”
آپ اس خاوند كو چھين نہيں رہيں، بلكہ اس شخص نے خود اپنى رضا و خوشى اور اختيار سے آپ كا رشتہ طلب كيا ہے.
پھر وہ شخص دو گھروں اور خاندانوں كا بوجھ برداشت كريگا، اور پہلى بيوى كو آپ كى وجہ سے چھوڑ تو نہيں رہا تو پھر اسے چھيننا كيسے قرار ديا جا سكتا ہے؟!
رہا پہلى بيوى كا نظريہ تو يہ چيز عورتوں كى فطرت ميں شامل ہے عموما عورتيں اس ميں غيرت كھاتى ہيں، اور عورت يہ نہيں چاہتى كہ اس كے ساتھ كوئى اور بيوى بھى شريك ہو بلكہ وہ تو چاہتى ہے كہ وہ اپنے خاوند كى اكيلى بيوى رہے.
يہ عام عورتوں ميں ہى نہيں بلكہ امت كى سب سے اعلى اور افضل عورتوں امھات المومنين سے غيرت كى بنا پر اس سلسلہ ميں كچھ نہ كچھ صادر ہو جايا كرتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان سے تجاوز كر جاتے.
اس طرح كے موقع پر خاوند كو حكمت سے كام لينا چاہيے تا كہ اختلافات اور جھگڑا زيادہ نہ ہو.
آپ نے دريافت كيا ہے كہ: آيا ميں اس شادى كو قبول كر لوں يا كہ صبر سے كام لوں ہو سكتا ہے اللہ تعالى كوئى اور رشتہ پيدا كر دے ؟
اس سلسلہ ميں ہمارا جواب اور نصيحت يہى ہے كہ: اگر آپ كو اميد ہے كہ آپ كو اس سے بہتر اور اچھا رشتہ مل جائيگا تو اس رشتہ كے انكار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر يہ خدشہ ہو كہ عمر زيادہ ہونے اور آپ كى خصوصى وجوہات كى بنا پر اس سے بہتر رشتہ نہيں آئيگا، بلكہ اس جيسا اور رشتہ بھى نہيں ملےگا تو پھر ہمارى رائے يہى ہے كہ آپ اس رشتہ كو قبول كرتے ہوئے شادى كر ليں. باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.
اور يہ بات كہ عورت كاد وسرى بيوى بننے پر راضى ہونا اور پہلى بيوى كى جانب سے كچھ تكليف كا حصول اور اسے برداشت كرنا، اور معاشرے ميں لوگوں كى باتيں سننا بغير شادى كے رہنے سے بہت ہى زيادہ آسان ہے.
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب