میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں اور میں نے ایک مکان کرائے پر لیا ہے، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس مکان کی مالکن نے اس مکان کی خریداری کے لیے سودی قرض لیا ہے، کرایہ کی مقدار بینک کو ادا کی جانے والی قسط سے زیادہ ہے، تو اس طرح یہ عورت بینک کو وہی رقم دیتی ہے جو میں اسے کرائے کی مد میں دیتا ہوں اور بچ جانے والی رقم اس کے لیے منافع ہوتی ہے، اب غالب گمان یہی ہے کہ اس خاتون نے یہ مکان خریدا ہی اس نیت سے ہے کہ اس طرح کاروبار کر سکے، میرا سوال یہ ہے کہ: کیا میرا اس مکان کو کرائے پر لینا گناہ کے کام میں تعاون شمار ہو گا؟ یا میرے لیے جائز ہے؟
سودی قرضے کی مدد سے خریدے ہوئے گھر کو کرائے پر لینا
سوال: 99833
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سودی قرض لینا شدید نوعیت کا حرام عمل ہے؛ کیونکہ سود کے بارے میں بہت ہی شدید وعید آئی ہے کہ سود کھانے والا، کھلانے والا اور اسے لکھنے والا سب ہی یکساں مجرم ہیں، جیسے کہ صحیح مسلم: (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور سودی معاملے کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا: یہ سب کے سب گناہ میں برابر ہیں۔
اگر کوئی شخص سودی قرض لے اور اس سے کوئی گھر یا سامان وغیرہ خریدے تو اس کے لیے اس گھر میں رہائش رکھنا یا اسے آگے فروخت کر دینا جائز ہے، یا کچھ اور بھی کر سکتا ہے، لیکن اس پر سودی لین دین سے توبہ لازم ہے۔
اس بنا پر: آپ نے اس خاتون سے مکان کرایہ پر لیا تو آپ پر کچھ نہیں ہے، چاہے اس نے بینک سے سودی قرضہ اسی نیت سے لیا ہو کہ مکان خرید کر در پردہ اس سے کمائی کرے، اس سودی معاملے کا گناہ اسی خاتون پر ہو گا؛ کیونکہ سودی لین دین اسی نے کیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22905 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات