زرعی اجناس کی زکاۃ کتنی ہوتی ہے اور اس کا نصاب کتنا ہے؟
زرعی اجناس کی زکاۃ یعنی عُشر اور ان کا نصاب
سوال: 99843
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
زرعی اجناس میں زکاۃ واجب ہے، اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/294)میں کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ گندم، جو، کھجور، اور منقی پر زکاۃ واجب ہے، یہ اجماع ابن المنذر اور ابن عبد البر رحمہما اللہ نے نقل کیا ہے۔" ختم شد
زرعی اجناس پر زکاۃ فرض ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ترجمہ: اور تم اس کا حق اس کی کٹائی کے وقت دو۔[الانعام: 141]
تاہم زرعی اجناس میں سے صرف انہی میں زکاۃ واجب ہے جن کا ماپ کیا جاتا ہے اور جنہیں ذخیرہ کرنا ممکن ہوتا ہے، چاہے وہ بنیادی غذا میں شامل ہوں یا نہ ہوں؛ اس کی دلیل صحیح بخاری: (1483) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ زمین جسے بارش یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکاۃ یعنی عُشر ہے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ عُشر ہے۔)
چنانچہ یہ حدیث عام ہے جو کہ تمام زرعی اجناس کو شامل ہے چاہے وہ بنیادی غذا ہو یا نہ ہو۔
اسی طرح صحیح مسلم: (979) میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پانچ وسق سے کم اناج اور پھل میں صدقہ یعنی عشر نہیں ہے۔) تو یہاں پر وسق کا اعتبار کیا گیا ہے جو کہ ماپنے کے معتبر اوزان میں سے ایک وزن ہے۔ جبکہ قابل ذخیرہ ہونے کی شرط اس لیے لگائی گئی کہ نعمت وہی ہو گی جو کہ محفوظ بھی کی جا سکے، اور اس شرط کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے دیر تک استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
علامہ بہوتی رحمہ اللہ "كشاف القناع" (2/205) میں کہتے ہیں:
"زکاۃ یعنی عشر ہر ایسی زرعی پیداوار میں ہے جسے ماپا جاتا ہے اور ذخیرہ کیا جاتا ہے، مثلاً: کھجور، منقی، بادام، پستہ، اور بندق وغیرہ۔" ختم شد
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/70) میں کہتے ہیں:
"اناج اور پھلوں میں زکاۃ یعنی عشر واجب ہے بشرطیکہ ان کا ماپ ہو سکے اور انہیں ذخیرہ کیا جا سکے، لہذا اگر ان میں یہ دو شرائط نہیں پائی جاتیں تو اس میں عشر نہیں ہے۔" ختم شد
دوم:
اناج اور پھلوں میں عشر تبھی فرض ہو گا جب ان کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے، اور وہ ہے پانچ وسق، ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، اور ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے، اور ایک مد معتدل جسامت کے آدمی کی دونوں ہتھیلیوں کے بھراؤ کے برابر ہوتا ہے۔ اس کی دلیل صحیح مسلم: (979) میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پانچ وسق سے کم اناج اور پھل میں صدقہ یعنی عشر نہیں ہے۔)
زرعی اجناس کا عشر انہیں پانی دینے کے ذرائع کے اعتبار سے الگ الگ ہے، چنانچہ اگر بغیر محنت مشقت کے پانی لگایا جاتا ہے مثلاً: بارش یا چشموں سے پانی لگتا ہے تو اس میں عشر دسواں حصہ ہے۔
اور اگر محنت و مشقت کر کے پانی لگایا جاتا ہے مثلاً: اسے واٹر پمپ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس میں عشر بیسواں حصہ ہے۔
اس کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی پہلے ذکر کردہ حدیث ہے کہ: (وہ زمین جسے بارش یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکاۃ یعنی عشر ہے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ عُشر ہے۔)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور: { عَثَرِيًّا} کے متعلق خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے مراد وہ فصل ہے جو اپنی جڑوں کے ذریعے پانی حاصل کر لے۔ {بِالنَّضْحِ} سے مراد ایسے اونٹ ہیں جن کے ذریعے رہٹ چلا کر پانی پلایا جاتا تھا، یہاں اونٹ بطور مثال ذکر ہوئے ہیں، وگرنہ بیل وغیرہ کے ذریعے پانی پلانے کا بھی یہی حکم ہے۔ اھ
آج کل ٹیوب ویل کا بھی یہی حکم ہے۔"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/77) میں کہتے ہیں:
"اس کی حکمت یہ ہے کہ : محنت و مشقت سے جسے پانی لگایا جائے تو اس میں اخراجات زیادہ ہو جاتے ہیں، اور جسے بغیر محنت و مشقت کے لگایا جائے تو اس میں اخراجات کم ہوتے ہیں، تو شریعت نے اس چیز کا خیال رکھا ہے، چنانچہ جس کے اخراجات زیادہ ہیں ان کے لیے تخفیف رکھی ہے۔" ختم شد
شیخ ابن باز رحمہ اللہ (14/74)کہتے ہیں:
"جن فصلوں کو بارش، نہروں اور چشموں سے پانی لگایا جائے تو کھجور، منقی، گندم، اور جو جیسے اناج اور پھل میں عشر ، دسواں حصہ ہے، اور جسے مشینوں وغیرہ سے پانی لگایا جائے تو اس میں بیسواں حصہ عشر ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب