ميرى بہن نے دو برس قبل دوران حمل رمضان المبارك كے روزے نہيں ركھے، اور ابھى تك وہ روزے ركھنے سے عاجز ہے، اس پر كيا واجب ہوتا ہے ؟
روزے كى قضاء سے بھى عاجز عورت كا حكم
سوال: 101100
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حاملہ عورت ـ اور دودھ پلانے والى بھى اس جيسى ہى ہے ـ كو جب اپنى جان كو ضرر كا خدشہ ہو، يا اپنے بچے كى جان كو خطرہ ہو تو اس كے ليے رمضان المبارك كے روزے چھوڑنا جائز ہيں، اور صرف اس كے ذمہ بعد ميں قضاء ہو گى؛ كيونكہ وہ مريض كى طرح ہے جو اپنى بيمارى كى بنا پر معذور ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 50005 ) اور ( 49848 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ا سكا مطالعہ كريں.
پھر اگر وہ دوسرا رمضان آنے سے قبل روزہ ركھنے كى استطاعت ركھے تو اس پر قضاء ميں روزے ركھنے واجب ہيں، اور اگر نيا حمل يا دودھ پلانے كى يا سفر كى بنا پر ا سكا عذر باقى رہے تو اس پر كوئى حرج نہيں، اور جب بھى وہ روزہ ركھنے پر قادر ہو تو اس پر قضاء لازم ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت نے رمضان ميں روزے نہيں ركھے اور اب وہ دودھ پلانے كى بنا پر قضاء نہ ركھ سكى حتى كہ دوسرا رمضان شروع ہو گيا تو اس پر كيا واجب ہوتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس عورت پر واجب ہے كہ وہ چھوڑے ہوئے ايام كےبدلے روزے ركھے، چاہے دوسرے رمضان كے بعد ہى ركھے؛ اس ليے كہ اس نے پہلے اور دوسرے رمضان كے درميان قضاء كے روزے عذر كى بنا پر نہيں ركھے، ليكن اگر سرديوں كے موسم ميں اس پر روزہ ركھنا مشقت نہ ہو تو اسے سرديوں كے موسم ميں قضاء كے روزے ركھنا ہونگے چاہے ايك دن چھوڑ كر ہى روزہ ركھے، كيونكہ اس پر يہ لازم ہے، اور اگر وہ بچے كو دودھ پلا رہى ہے تواسے گزشتہ رمضان كى قضاء كے روزے حسب استطاعت ركھنا ہونگے جتنے ركھ سكتى ہے وہ ركھ لے، اور اگر دوسرا رمضان آنے سے قبل نہ ركھ سكے تو اسے دوسرے رمضان كے بعد تك مؤخر كر لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.
مسائل رمضان ( 19 ) جواب سوال نمبر ( 360 ).
اور شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى سوال كيا گيا:
ايك عورت نے ولادت كے باعث رمضان كے روزے نہ ركھے، اور اس نے اس كى قضاء بھى نہيں كى اور اسے ايك لمبا عرصہ ہو چكا ہے، اور وہ روزے نہيں ركھ سكتى تواس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس عورت كو اپنےاس فعل پر اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے؛ كيونكہ كسى بھى انسان كے ليے ايك رمضان سے دوسرے رمضان تك قضاء كو بغير كسى شرعى عذر مؤخر كرنا حلال نہيں، اس ليے اسے توبہ كرنى چاہيے، اور پھر اگر وہ روزے ركھنے كى استطاعت ركھتى ہے چاہے ايك دن چھوڑ كر تو اسے روزے ركھنا ہونگے، اور اگر وہ استطاعت نہيں ركھتى تو ديكھا جائيگا كہ:
اگر ا سكا عذر مستقل اور جارى ہے تو وہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے، اور اگر وقتى عذر ہے اور اس كے زائل ہونے كى اميد ہے تو عذر ختم ہونے كا انتظار كيا جائيگا، اور پھر وہ اپنے ذمہ روزوں كى قضاء كرتے ہوئے روزے ركھے گى " انتہى.
( 19 ) جواب سوال نمبر ( 361 ).
سوال كرنے والى نے يہ بيان نہيں كيا كہ اس كى بہن روزے ركھنے سے عاجز كيوں ہے اور ا سكا سبب كيا ہے، اس ليے اگر تو وہ وقتى طور پر عاجز ہے اور ا سكا زائل ہونا ممكن ہے ( حمل يا دودھ پلانے يا مرض كى بنا پر ) تو جب بھى ممكن ہو يہ روزے ركھنا واجب ہيں.
اور اگر ا سكا عذر اور عاجز ہونا دائمى ہے يعنى دائمى مرض جس سے شفايابى كى اميد نہيں تو اس پر قضاء نہيں بلكہ وہ ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے "
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات