اسلام ميں تنطع كيا ہے، اور كيا چہرے كا پردہ كرنا اور داڑھى ركھنا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سب افعال كا التزام كرنا، اور دين ميں ہر نئے كام كا انكار كرنا تشدد كہلاتا ہے ؟
اور درج ذيل حديث نبوى:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو معاملوں كا اختيار ديا جاتا تو آپ اس ميں سے آسان كو اختيار فرماتے "
كا معنى كيا ہے ؟
مذموم غلو كيا ہے ؟
سوال: 103889
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس حديث ميں تنطع اور غلو كى مذمت آئى ہے وہ عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے جس ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تنطع يعنى غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے، آپ نے يہ بات تين بار دھرائى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2670 ).
تنطع اور متنطعين كى شرح ميں علماء كرام كى بہت سارى عبارات ہيں جن كا معنى ايك ہى ہے اس ميں كوئى اختلاف و تعارض نہيں، اور يہ سب ايك ہى معنى پر متفق ہيں، جو ايسى جگہ تكلف اور تشدد كرنا ہے جہاں نہيں كرنا چاہيے، يعنى غير صحيح مقام پر تشدد اور تكلف سے كام لينا تنطع كہلاتا ہے ذيل ميں تنطع كے معانى ديے جاتے ہيں:
1 ـ عبادت اور معاملہ ميں غلو سے كام لينا، وہ اس طرح كہ يہ زائد مشقت كا باعث بنے، اور پھر شريعت اسلاميہ نے تو وہى حكم ديا ہے جس ميں آسانى و سہولت ہے اور دين ميں تشدد سے منع فرمايا ہے، لوگوں نے دين ميں جو تشدد اور غلو كر ليا ہے اس كى كئى صورتيں ہيں جنہيں علماء نے تنطع ميں شمار كيا ہے ان صورتوں كوشمار كرنا مشكل ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى تعمق اور غلو كرنے والے جو اپنے افعال و اقوال ميں حد سے تجاوز كرتے ہيں " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 16 / 220 ).
2 ـ دين ميں بدعات كى ايجاد: يعنى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نےجسے حرام نہيں كيا اسے حرام كر دينا، اور عبادات كى ايسى صورتيں ايجاد كرنا اور التزام كرنا جس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں وجود نہ تھا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وہ رہبانيت اور عبادات جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كيا يہ مشركوں كى جنس تحريم ميں شامل ہوتى ہيں جنہيں اللہ نے ان كے ليے حلال كيا تھا ليكن انہوں نے خود اپنے اوپر حرام كر ليں.
اور يہ بالكل اسى تنطع اور غلو اور تعمق كى مثل ہے جس كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذمت كرتے ہوئے فرمايا:
" غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے "
اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" اگر ميرے ليے مہينہ اور لمبا كر ديا جاتا تو ميں وصال كرتا ( يعنى تسلسل كے ساتھ روزے ركھتا رہتا ) ايسا وصال كہ غلو كرنے والے اپنے غلو كو چھوڑ ديتے "
مثلا حد سے زيادہ بھوك اور پياس جو عقل و جسم كے ليے نقصاندہ ہو، اور واجبات و فرائض يا مستحبات كى ادائيگى ميں ركاوٹ بنے.
اور اسى طرح ننگے رہنا اور جوتے نہ پہنا اور چلنا جو انسان كے ليے مضر ہو اور اس ميں كوئى فائدہ نہ ہو، مثلا ابو اسرائيل كى حديث جس نے نذر مان ركھى تھى كہ وہ روزہ ركھے گا اور كھڑے رہے گا اور بيٹھے گا نہيں، اور نہ ہى سايہ اختيار كريگا،اور بات چيت بھى نہيں كريگا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسے حكم دو كہ وہ بيٹھ جائے اور سايہ اختيار كرے، اور بات چيت بھى كرے اور اپنا روزہ مكمل كر لے "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے، اور يہ باب بہت وسيع ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 620 ).
3 ـ كلام ميں گہرائى اور باچھيں كھول كر تكلف سے فصيح كلام كرنے كى كوشش، جس سے لوگوں كے دل اس كى جانب مائل ہوں، نہ تو اس كا كوئى معنى ہو اور نہ ہى وہ كلام كوئى مضمون ركھتى ہو، اور اس كے ايسا كرنے سے كسى فائدہ كى اميد نہ ہو.
4 ابن ابى الدنيا نے يہ حديث رسالۃ " الغيبۃ و النميمۃ " ميں كلام ميں گہرائى كى مذمت كے باب ميں بيان كى ہے جس ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے اپنى امت ميں جس چيز كا سب سے زيادہ خوف ہے وہ ہر عليم اللسان منافق ہے "
ديكھيں: الغيبۃ والنميمۃ ( 15 ) اور مسند احمد ( 1 / 22 ) محققين نے اس كى سند كو حسن قرار ديا ہے.
اور اس ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا قول بھى مروى ہے: كلام ميں تكلف كرنا شيطان كى جانب سے ہے "
اور ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" المتنطعون: وہ لوگ جو كلام ميں غلو اور گہرائى اختيار كرتے ہيں، اور حلق كے آخرى حصہ سے كلام كرتے ہيں، يہ نطع سے ماخوذ ہے جو منہ كے اوپر غار ہے، پھر اسے ہر قول اور عمل كے تعمق ميں استعمال كيا جانے لگا " انتہى
ديكھيں: النھايۃ ( 5 / 164 ).
5 ـ لا يعنى اشياء ميں غور و خوض كرنا، اور ايسے سوال كرنا جو نہيں كرنے چاہيئں اور بلا فائدہ بحث ميں تكلف كرنا.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" المتنطع: كسى چيز ميں تعمق اختيار كرنے والا، اہل كلام جو ايسى اشياء ميں داخل ہونے ہيں جن كا كوئى فائدہ نہيں وہ لا يعنى اشياء ہيں كے مذاہب كو تلاش كرنے كا تكلف كرنے والا ، يہ اہل كلام ايسے ہيں وہ ايسى اشياء ميں غور و خوض كرتے پھرتے ہيں جہاں ان كى عقل پہنچ ہى نہيں سكتيں "
ماخوذ از: عون المعبود ( 12 / 235 ).
اور ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" المتنطع: وہ شخص جو لا يعنى اشياء ميں بحث و تلاش كرے؛ كيونكہ واجبات اور حرام ميں جن حكم كا ذكر نہيں اس كے متعلق كثرت سے سوال كرنا اور تلاش كرنے سے بعض اوقات اس كے حرام ہونے كا اعتقاد پيدا ہو جائيگا يا پھر واجبات يا حرام كے مشابہ ہونے كى بنا پر اس كے واجب و حرام ہونے كا اعتقاد بن سكتا ہے.
لہذا اس كو قبول كرنے ميں ہى عافيت ہے، اور اس كو تلاش اور سوال كرنے سے ركنا ہى بہتر ہے " انتہى
ديكھيں: العلوم و الحكم ( 285 ).
پھر ابن رجب رحمہ اللہ نے مجھول امور غيبيہ اور متكلف فقھى فروق كى ايسى مثاليں ذكر كى ہيں جن كے متعلق بحث سے اجتناب كرنا چاہيے، اور ايسے امور و مسائل جن كا وقوع نادر ہوتا ہے اس كى مثاليں بيان كى ہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ رياض الصالحين كى شرح ميں كہتے ہيں:
" اسى طرح عبادت ميں شدت اختيار كرنا، كہ انسان اپنے اوپر نماز يا روزہ يا دوسرى عبادت جسے اللہ نے ميسر اور آسان كيا ہے وہ شدت كرے، كيونكہ جب وہ اللہ كى جانب سے آسان كردہ ميں اپنے اوپر شدت كرے گا تو وہ ہلاك ہو جائيگا.
اس ميں بعض بيمار اور مريض اشخاص كا يہ عمل شامل ہے ـ خاص كر رمضان ميں ـ جب اللہ سبحانہ و تعالى نے مريض كے ليے روزہ نہ ركھنا مباح كيا ہے، اور اس بيمار كو كھانے پينے كى بھى ضرورت ہے، ليكن وہ اپنے اوپر شدت كرتا ہوا روزہ ركھتا ہے، تو اس شخص كو ہم كہينگے كہ اس پر يہ حديث " غلو اور شدت كرنے والے ہلاك ہو گئے " صادق آتى ہے.
اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ بعض مجتھد قسم كے طلباء توحيد كے باب ميں كرتے ہيں، جب وہ رب ذوالجلال كى صفات كى آيات اور احاديث پڑھتے ہيں تو وہ اس كے متعلق بحث كرنا شروع كر ديتے ہيں، اور ايسے سوالات كرتے ہيں جن كے وہ مكلف نہيں بنائے گئے، اور نہ صحابہ و تابعين اور ان كے بعد سلف امت اس پر چلے.
آپ ديكھيں كہ وہ غلو اور حد سے تجاوز كرتے ہوئے ايسى اشياء اور امور تلاش كرتا اور بحث كرتا ہے جو ان امور ميں شامل ہوتے ہيں جن كا انہيں مكلف نہيں بنايا گيا، ہم اس طرح كے افراد سے كہينگے:
اگر تو وہ كچھ جو صحابہ كرام كو كافى ہوا وہ تمہيں كافى ہے تو تم اس سے باز رہو، اور اگر تمہيں وہ كافى نہيں تو اللہ تم پر اسے وسيع نہيں كريگا، اور يہ جان لو كہ تم حرج و پريشانى اور شدت ميں پڑھ جاؤگے…
اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ كچھ طلبا لفظى دلائل ميں عقلى احتمالات داخل كر ليتے ہيں؛ آپ ديكھيں گے كہ وہ كہتا ہے يہ بھى احتمال ہے، اور يہ بھى احتمال ہے، حتى كہ وہ نص كا فائدہ ضائع كر ديتا ہے، اور سارى نص بےحس ہو جاتى ہے اور اس سے كوئى فائدہ حاصل نہيں ہوتا، يہ غلط ہے، آپ نصوص كا ظاہر لے ليں اور عقلى احتمالات كو چھوڑ ديں، كيونكہ اگر ہم كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كے دلائل پر عقلى احتمالات كو مسلط كر ديں تو ہمارے ليے كوئى حديث يا آيت نہيں رہے گى جس سے انسان استدلال كر سكے، تو اس پر ہر چيز وارد ہو جائيگى، اور ہو سكتا ہے يہ وہمى امور اور عقلى امور اور شيطانى خيالات ہو، جو انسان كے دل ميں ڈالتا ہے تا كہ وہ انسان كا اللہ پر ايمان اور عقيدہ خراب كر كے ركھ دے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.
اس ميں يہ بھى شامل ہے جو بعض متشددين وضوء ميں كرتے ہيں كہ آپ ديكھيں گے وہ تين يا چار يا پانچ يا سات يا اس سے بھى زيادہ بار وضوء كرتا ہے، حالانكہ وہ اس سے عافيت ميں ہے، اور اسى طرح غسل جنابت ميں بھى اسے ديكھيں گے كہ وہ غسل كرتے وقت تكلف كرتے ہوئے پانى كانوں ميں ڈالتا ہے اور ناك كى بانسريوں ميں بھى اچھى طرح ڈالنے كا تكلف كرتا ہے.
يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس قول ميں شامل ہوتا ہے:
" غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے، غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے، غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے "
لہذا جس نے بھى اپنے اوپر كسى ايسے امر ميں سختى و شدت كى جس ميں اللہ نے وسعت و آسانى ركھى ہے تو وہ اس حديث ميں داخل ہو گا " انتہى مختصرا
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 416 – 418 ).
دوم:
دين كے ظاہرى شعار و علامات كا التزام كرنا، اور اللہ كى حدود كى حفاظت و پابندى كرنا، اور اللہ كے حكم كو تسيلم كرتے ہوئے ان پر عمل كرنا يہ سب كچھ دين كے واجبات ميں شامل ہوتا ہے، اور اللہ رب العالمين كى جنت ميں داخل ہونے كا باعث ہے.
اسے تنطع اور غلو ميں شامل نہيں كيا جائيگا، الا يہ كہ جو شريعت سے باہر نكلنا چاہے، اور دين كے ثابت شدہ احكام ميں طعن كرے؛ كيونكہ تنطع اور غلو مذموم ہے اور تنطع يہ ہے كہ يہ شريعت كے قانون اور آداب سے خارج ہونا ہے، تو پھر دين پر عمل كرنا اور اس كے احكام پر مضبوط سے عمل كرنے كو تنطع اور غلو كيسے كہا جا سكتا ہے ؟!!
اس ميں فيصلہ كن بات كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہے لہذا جو بھى صحيح اور ظاہر دلائل ميں كسى چيز كا وجوب آ جائے ـ مثلا چہرہ ڈھانپنا اور داڑھى بڑھانا ـ يا كسى چيز كى حرمت ـ مثلا گانا بجانا اور عورتوں سے اختلاط وغيرہ ـ تو اس كو تنطع اور غلو كا وصف دينا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ـ جنہوں نے ہميں اس كا حكم ديا ہے ـ پر متنطع كا اتہام لازم آئيگا!! حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسے نہيں.
ليكن جو نصوص ميں نہيں اور وہ غلو و تنطع كى مندرجہ بالا چار تفسير اور معانى ميں شامل ہو تو اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے، اس كے اور ثابت شدہ اور ظاہر شرعى احكام كے درميان خلط ملط كرنا جائز نہيں.
سوم:
رہى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو معاملوں ميں اختيار ديا جاتا تو آپ ان ميں سے آسان اختيار كرتے جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر گناہ ہوتا تو وہ سب لوگوں سے زيادہ اس سے دور بھاگنے والے ہوتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3367 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327 ).
اس ليے شريعت كو چھوڑنے كا كوئى معنى اور وجہ نہيں اور نہ ہى واجبات و فرائض ميں كمى و كوتاہى كرنے كى كوئى وجہ ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى بندگى تو سب لوازمات كے ساتھ كرتے تھے، ليكن " دو معاملوں كے درميان " سے مراد دنياوى امور ہيں جن ميں شرعى امر يا نہى نہيں، يا پھر وہ امور ہيں جو سنن اور واجبات ميں سے وسعت و اختيار پر مشتمل ہيں، ليكن جب وہ واجب يا حرام ہو تو بغير كسى كمى و كوتاہى كے اس پر عمل كرنا ہو گا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ: " دو معاملوں كے درميان " يعنى دنياوى امور ميں سے اس كى دليل يہ قول ہے:
" جب تك وہ گناہ نہ ہوتا " كيونكہ دينى امور ميں كوئى گناہ نہيں ہوتا.
اور قولہ: " جب تك اس ميں گناہ نہ ہوتا " يعنى جب آسان امر اور معاملہ گناہ كا مقتضى نہ ہوتا، تو اس وقت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم شديد امر كو اختيار كرتے، اور طرانى الاوسط ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے:
" مگر آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان دونوں ميں سے آسان امر كو اختيار فرماتے جب كہ اس ميں ناراضگى نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 575 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب