قريب البلوغت اولاد كو شارٹ لباس پہنانے كاحكم كيا ہے ؟
اور اگر ميرى بيٹى پردہ كرنے اور برقع پہننے سے انكار كر دے تو ميں كيا كروں ؟
اپنے خاوند كے ساتھ كيا طريقہ اختيار كروں كيونكہ وہ بہت سخت ہے اور ميں اس سے بہت پريشانى اور تنگ ہوں وہ چاہتا ہے كہ ہمارى اولاد ہر حرام كام سے اجتنناب كرے چاہے وہ خود اس كا ارتكاب كرتا ہو، ميں اس عالم دين كے ساتھ كيا طريقہ اختيار كروں، ان دنوں جتنے لوگ بھى اسلام كى پيروى كر رہے ہيں وہ ہر چيز ميں تشدد اور سختى سے كام ليتے ہيں ان حالات ميں مجھے جو مشكلات اور تعصب كے اوقات ميں كس طرح اسلام كى تعليم حاصل كر سكتى ہوں ؟
كہتے ہيں كہ خاوند كى نافرمانى و معصيت جائز نہيں اگر ميں اس كے علم پر بھروسہ نہيں كرتى تو اس كى بات ماننے كے ليے ميں كيا كروں اور اس كا حل كيا ہے ؟
اولاد كو تنگ اور چھوٹا لباس پہنانا اور بيوى كا اس پر اعتراض كرنا
سوال: 110593
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كشتياں اور بحرى جہاز جو سمندروں ميں چلتے ہيں اور اپنے اوپر كئى ايك اشخاص كو اٹھائے ہوئے ہيں وہ تو ان كے چلانے والے قائد اور كيپٹن كے علاوہ نہيں چل سكتے وہى انہيں چلاتے اور حركت ميں لاتے ہيں تا كہ اس ميں سوار لوگ امن و سلامتى كے ساتھ ساحل پر پہنچ سكيں.
اس وقت ايك مسلمان خاندان بھى بالكل ايك ايسى كشتى كى طرح ہى ہے جو فتنہ و فساد كى موجوں كے سمندر ميں چل رہى ہے، اور پھر دين كے دشمن جمع ہو كر مسلمان خاندان كے پيچھے پڑے ہوئے ہيں كہ اسے ہلاك اور قتل كر ديا جائے، اس كے ليے انہوں نے ہر قسم كے وسائل اور طريقہ اختيار كر ركھے ہيں.
كہيں عالمى كانفرنسيں ايك ملك سے دوسرے ملك منعقد كى جا رہى ہيں، اور انہيں عالمى تنظيميں اور منتظمين منعقد كر رہے ہيں، ان سب كا مقصد يہى ہے كہ مسلمان خاندان اور گھرانے كو ضائع اور تباہ كر ديا جائے، اور اس ميں جو ربط پايا جاتا ہے اسے تباہ كر كے خاندان كا شيرازہ بكھير ديا جائے اور اس كے افراد ميں سے شرم و حياء جيسى چيز چھين لى جائے اور ان كى عفت و عصمت قتل كر دى جائے.
اور پھر يہ فضائى چينل اور پرنٹ ميڈيا اور ميگزين اور دوسرے وسائل اعلام سب ہى مسلمان خاندان ميں بہت ہى برا اور قبيح عمل كر رہے، سب كى ايك ہى غرض و غايت اور مقصد ہے پرنٹ اور اليكٹرانك ميڈيا كا مشاہدہ كرنے والے پر يہ چيز مخفى نہيں رہ سكتى.
ان متلاطم موجوں كے سائے ميں مسلمان خاندان كى كشتى چل رہى ہے، اور اگر اسے چلانے والا ملاح عقلمند و حكيم نہ ہو تو يہ كشتى تباہ ہو جائيگى اور سب ہلاك ہو جائيں گے.
خاندان كا سربراہ اس كشتى كا ملاح ہے، ہم اس باپ كو كوئى ملامت نہيں كرتے جو اپنى بيوى اور اولاد كے فتنہ و فساد ميں پڑ جانے كا خوف ركھتا ہو، اس فساد اور خرابيوں نے بہت زيادہ نقصان كيا ہے جسے خاندان كا سربراہ اكيلا روك سكے، اور اگر اس ميں يہ بھى شامل ہو جائے كہ اس كشتى كو كنٹرول كرنے اور چلانے ميں بيوى تعاون نہ كرے، بلكہ اگر وہ خاوند كى مخالفت كرنے لگے اور خاوند خاندان كى كشتى كو ان فتنوں اور خرابيوں سے بچانا اور نجات دلانا چاہے ليكن بيوى اس كى مخالفت كرنے لگے تو كيا حالت ہو جائيگى ؟!
سائلہ بہن: آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ معاملہ آسان اور سہل نہيں، آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے خاوند كے ليے بہتر معاون بن كر اپنے خاندان كے افراد كى اصلاح كريں، چاہے آپ ان احكامات اور فيصلوں سے متفق نہ بھى ہوں، تو بھى آپ كے ليے خاوند كى مخالفت صحيح نہيں، اور خاص كر جب اولاد سامنے ہو تو مخالفت مت كريں، كيونكہ اس كا اولاد كى تربيت پر غلط اثر پڑتا ہے.
ليكن اگر والد گھر كے افراد كو جو حكم دے رہا ہے اس ميں كوئى نہ كوئى شرعى نص پائى جاتى ہے جس كا شريعت حكم دے رہى ہے تو باپ بھى وہى كہہ رہا ہے.
يا پھر باپ اپنى اولاد كى اس ميں مصلحت ديكھتا ہے تو انہيں وہى حكم ديتا ہے جس ميں ان كى اصلاح ہے، يا پھر انہيں كسى خرابى اور غلط كام سے روكتا ہے.
دوسرے معاملہ ميں اگرچہ مناقشہ كى مجال ہے، ليكن پہلے معاملہ ميں تو بالكل ايسى كوئى مجال نہيں ہے، كيونكہ ہمارے سب معاملات و تصرفات پر شريعت حاكم ہے، اس كو قبول نہ كرنے اور اور نافذ نہ كرنے ميں ہميں كوئى اختيار حاصل نہيں ہے.
دوم:
ہمارى سوال كرنے والى بہن: آپ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو اور آپ كے خاوند كو حكم ديا ہے كہ اپنے آپ كو جہنم كى آگ سے بچاؤ اور اسى طرح اپنى اولاد كو بھى جہنم كى آگ سے بچانے كا حكم ديا ہے، چنانچہ يہ معاملہ كوئى آسان اور سہل نہيں، بلكہ بہت ہى خطرناك ہے، اور آپ كا خاوند ہى اپنى رعايا اور گھر كے افراد كا ذمہ دار اور نگران نہيں بلكہ اسى طرح آپ بھى ذمہ دار ہيں، ان كے بارہ ميں آپ سے بھى باز پرس كى جائيگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اپنے آپ كو اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر سخت اور شديد فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے اور انہيں جو حكم ديا جاتا ہے اس پر عمل كرتے ہيں التحريم ( 6 ).
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
” تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے تمہارى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا تم اس كے جوابدہ ہو، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا وہ اس كا جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
آپ يہ جان ليں كہ نہ تو بچوں كى تربيت شدت اور سختى سے كى جا سكتى ہے اور نہ ہى اس ميں سستى و كوتاہى ہو سكتى ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
والدين اپنى اولاد كى تربيت ميں كيا طريقہ اختيار كريں ؟
تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” اولاد كى تربيت ميں كاميات ترين طريقہ يہ ہے كہ: اس ميں ميانہ روى اختيار كى جائے جس ميں نہ تو افراط ہو اور نہ ہى تفريط چنانچہ اس ميں نہ تو شدت ہونى چاہيے اور نہ ہى سستى و اہمال اور بےپرواہى.
اس ليے والد اپنى اولاد كى تربيت كرے اور انہيں تعليم دے اور ان كى راہنمائى كرے، اور انہيں اخلاق فاضلہ كى تعليم دے، اور آداب حسنہ سكھائے، اور انہيں ہر برے اورغلط اخلاق سے منع كرے اور روكے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے ” انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25 / 290 – 291 ).
سوم:
يہ علم ميں ركھيں كہ شريعت پرحكمت ہے، آپ كو حكم ديتى ہے كہ اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز كى تعليم دو اور انہيں نماز ادا كرنے كا كہو، اور يہ حكم ديتى ہے كہ جب وہ دس برس كے ہو جائيں تو ان كے بستر عليحدہ كر دو يہ اس ليے ہے كہ ان كى پرورش اچھى ہو، اور آئندہ مستقبل ميں ان كى اصلاح ہو جائے.
اگرچہ وہ ابھى مكلف نہيں ـ كيونكہ ابھى وہ بالغ نہيں ہوئے ـ ليكن يہ چيز اس ميں مانع نہيں كہ ان كے والدين اور گھر والے انہيں ان اصلاح والے كام كا حكم نہ ديں، بلكہ يہاں انہيں حكم دينے ميں تمہارے ليے بھى اور ان كے ليے بھى بہتر اور اصلاح كا باعث ہے.
اسى طرح ان كى بہتر معاملہ كرنے اور حسن اخلاق پر عمومى پرورش كرنا اور خاص كر شرم و حياء اور عفت و عصمت پر پرورش كرنى چاہيے، اس ميں شرمگاہ كى حفاظت بھى شامل ہے اور اسى طرح تنگ اور چھوٹا لباس پہننا بھى شرم و حياء اور عفت و عصمت پر اثرانداز ہوتا ہے يہ نہيں پہنانا چاہيے.
اور دوسرى جانب ايسا لباس پہنانے ميں دوسرے كے ليے شہوات انگيزى كا باعث بنتا ہے چاہے وہ گھر والے ہوں يا دوسرے اقرباء اور رشتہ دار جو بھى انہيں ديكھےگا شہوت انگيزى پيدا ہوگى.
شريعت اسلاميہ نے اس عمر ميں ان كے بستر عليحدہ كرنے كا حكم ديا ہے تو يہ كيسى ممكن ہو سكتا ہے كہ تمہارے يہ جائز قرار دے كہ تم انہيں اس عمر ميں بيدارى كى حالت ميں تنگ اور چست اور چھوٹا لباس پہناؤ ؟!
اس ليے آپ اس معاملہ كى علت كو سمجھيں اور ايسے كام اور فتنہ و فساد بننے كے سبب سے بچيں جس كا انجام سوائے سمندر كے پانى جتنے آنسوؤں كے كچھ نہيں ہے، اور نہ ہى كوئى ايسى فضا ہے جو غم و حسرت كو خوش آمديد كہے گى.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
ہم اكثر عورتوں كى مجلس ميں ديكھتى ہيں كہ نوجوان لڑكيوں اور چھوٹى بچياں جو سات برس كى عمر سے كم يا اس سے اوپر ہوتى ہيں انہوں نے چھوٹا يا تنگ لباس پہن ركھا ہوتا ہے، يا پھر انہوں نے يورپى سٹائل كا لباس زيب تن كر ركھا ہوتا ہے، يا چھوٹى بچيوں كے بالوں كى كٹنگ بچوں جيسى كى ہوتى ہے.
اور جب ہم ان سے اس سلسلہ ميں بات كرتى اور انہيں نصيحت كرتى ہيں تو جواب ديا جاتا ہے كہ ابھى تو يہ چھوٹى ہيں، برائے مہربانى آپ بچوں كے لباس اور ان كے بالوں كى كٹنگ كے بارہ ميں شافى جواب عنائت فرمائيں، اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے.
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” يہ تو معلوم ہے كہ انسان صغر سنى ميں كسى چيز سے متاثر ہوتا ہے تو اس كا اثر بڑے ہو جانے كے بعد بھى باقى رہتا ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كہ ہم اپنے بچوں كو سات برس كى عمر ميں نماز كا حكم ديں اور جب دس برس كى عمر كے ہو جائيں تو نماز ادا نہ كرنے پر انہيں ماريں؛ تا كہ وہ نماز كے عادى بن جائيں.
كيونكہ بچہ جس چيز كا عادى ہو جاتا ہے اس پر عمل كرتا ہے، اس ليے جب چھوٹى بچى تنگ اور چست اور گھٹنوں تك يا پھر كہنى يا كندھے تك چھوٹا لباس پہننے كى عادى بن جائيگى تو اس كى شرم و حياء جاتى رہےگى، اور وہ بڑى ہو كر اس طرح كے لباس كو جائز سمجھےگى.
اسى طرح بال كے متعلق بھى ہوگا، عورت كے ايسے بال ہونا ضرورى ہيں جن سے وہ مرد سے ممتاز ہو سكے، يعنى مردوں كے بالوں سے عورت كے بالوں ميں امتياز ہونا ضرورى ہے، اگر وہ عورت بھى مرد كے بالوں جيسے بال ركھتى ہے تو مردوں سے مشابہت ہوگى اور مردوں سے مشابہت كرنے والى عورت پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.
اور يہ بھى علم ميں رہنا چاہيے كہ گھر والےان بچوں كے بارہ ميں جوابدہ ہيں، اور ان كى راہنمائى اور پرورش كے ذمہ دار ہيں انہيں اس كا جواب دينا ہوگا.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
” مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار اور راعى ہے اور اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا ”
اس ليے اس ميں كوتاہى اور سستى كرنے سے بچا جائے، اور انسان كو اپنى اولاد كى تربيت كرنے ميں حقيقت سے كام لينا چاہيے اور اس كى حرص ركھے حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كى اصلاح فرما دے، اور وہ اس كى آنكھوں كى ٹھنڈك بن سكيں ” انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 66 / 10 ).
چہارم:
جب بچى صغر سنى اور بچپن ميں شرم و حياء اور عفت و عصمت پر پرورش پائيگى تو بلوغت سے قبل ہى وہ سر پر چادر اوڑھنے اور برقع پہننے كى رغبت ركھےگى، اور بچپن ميں والدين كى سستى اور كوتاہى كى بنا پر اگر بڑى ہونے كے بعد وہ ساتر اور عفت و حشمت والا لباس زيب تن نہيں كرتى تو والدين كو اس كا علاج وعظ و نصيحت كے ساتھ كرنا چاہيے اور اگر يہ فائدہ مند نہ ہو تو پھر اس كے ساتھ ذرا سخت اسلوب اختيار كيا جائے تا كہ اسےاس كى رغبات سے باز ركھا جائے اور اسے اپنى مرضى نہ كرنے دى جائے.
كيونكہ اگر تم اس كے لباس كے بارہ ميں خاموشى اختيار كروگے تو پھر وہ برقع پہننے اور پردہ كرنے سے بھى انكار كر دے گى، اور ساتر لباس بھى زيب تن نہيں كريگى، اور بعض دوسرى اشياء كے ارتكاب پر بھى جرات كرنے لگےگى.
اور يہى كشتى ڈوبنے كى علامت و نشانى ہے! كہ فيصلے بچوں كے ہاتھ ميں چھوڑ ديے جاتے ہيں، ہم تاكيدا كہتے ہيں كہ ابتدا نرمى اور شفقت كے ساتھ كى جائے، اور ان كى اصلاح سے نااميدى نہ ركھى جائے، اور نہ ہى ابتدائى طور پر شديد سختى سے كام ليا جائے، ليكن جب كشتى كا ملاح ديكھے كے سختى كے بغير كام نہيں چلتا تو پھر عقلمندى سے استعمال كرے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بچى كے ليے كس عمر ميں پردہ كرنا واجب ہے، اور كيا ہم طالبات پر پردہ كرنا لازم كر ديں چاہے وہ ايسا كرنا ناپسند بھى كرتى ہوں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” جب بچى بالغ ہو جائے تو اس پر ايسا لباس پہننا واجب ہو جاتا ہے جو اس كے ستر كو چھپائے، اور اس ميں چہرہ اور سر اور دونوں ہاتھ شامل ہيں، چاہے وہ شاگرد طالبات ہوں يا نہ لڑكى كے ولى كو چاہيے كہ وہ اپنى بچى پر اسے لازم كرے چاہى بچى ناپسند بھى كرتى ہو.
بچى كے اولياء كو چاہيے كہ وہ بچى بالغ ہونے سے قبل ہى بچى كى تربيت كرے تا كہ وہ بالغ ہونے سے قبل ہى پردہ اور ساتر لباس پہننے كى عادى بن جائے، اور بالغ ہونے پر اس كے ليے اطاعت كرنے ميں كوئى مشكل پيش نہ آئے ” انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 219 – 220 ).
اس ليے آپ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اپنى اولاد كى تربيت ميں اپنے خاوند كى بہتر معاون بنيں، اور شريعت پر عمل كرنے كے متعلق دشمنان دين كى بات يہ تشدد پسندى اور سختى ہے جيسے الفاظ كہہ كر دين كے دشمنوں كے ساتھ مت مليں.
اور آپ كا خاوند اپنے بارہ ميں جو كوتاہى كرتا ہے اس كے بارہ ميں آپ اسے وعظ و نصيحت كريں اور اسے سمجھائيں اور اللہ رب العالمين كا خوف دلائيں، اور اس كى اس كوتاہى اور كمى كو اولاد كى كمى اور كوتاہى كے ليے جواز مت بنائيں.
اور آپ صيحح طرح امانت كى ادائيگى كے ليے اللہ رب العالمين سے مدد مانگيں.
اللہ رب العالمين سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو وہ كام كرنے كى توفيق دے جس ميں اللہ كى رضا اور خوشنودى ہے.
سوال نمبر (10016 ) كے جواب ميں ہم نے اولاد كى اصلاح كے ليے كيسے تربيت كى جائے جيسا موضوع بيان كيا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور سوال نمبر (10211 ) كے جواب ميں چھوٹے بچوں كى تعليم اور دعوت كا صحيح طريقہ بيان كر چكے ہيں اس كو بھى ضرور پڑھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات