ہم دو ركعت نماز جمعہ ادا كرتے ہيں اور امام سلام پھيرنے كے بعد مقتديوں كى جانب منہ كر كے دعا مانگتا ہے اور ہم سب آمين كہتے ہيں، كيا ہمارا يہ فعل صحيح ہے ؟
نماز جمعہ كے بعد اجتماعى دعا مانگنا
سوال: 115781
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مومن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرنى چاہيے اس ليے جس سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روكا ہے اس سے رك جائے اور جس كا حكم ديا ہے اسے كيا جائے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ جو اللہ سے ملاقات اور يوم آخرت كى اميد ركھتا ہے الاحزاب ( 21 ).
فرضى نماز ـ جمعہ وغيرہ ـ كے بعد امام كا دعا مانگنا اور مقتديوں كا آمين كہنا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام ميں سے كسى نے يہ عمل كيا ہے اگر يہ خير و بھلائى ہوتى تو صحابہ اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.
اس بنا پر يہ فعل مذموم اور بدعت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو كوئى بھى ميرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارا اختلاف ديكھےگا، اس ليے تم ميرى اور ميرے خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑنا، اور اس پر سختى سے عمل كرنا اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ كا يہ بھى فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا كام كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.
شاطبى رحمہ اللہ اپنى كتاب " الاعتصام " ميں بيان كرتے ہيں:
" فرضى نمازوں كے بعد اجتماعى دعا كرنا بدعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا، اور نہ ہى صحابہ كرام نے اور ان كے بعد آئمہ نے بھى ايسا نہيں كيا "
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 349 – 355 ).
لہذا اس بدعت كو ترك كرنا ضرورى و واجب ہے، اور ان شرعى اذكار اور دعاؤں كا خيال ركھنا چاہيے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرضى نماز كے بعد كيا كرتے تھے اور جو كوئى دعا كرنا چاہتا ہے تو وہ خفيہ طور پر كرے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 10491 ) اور ( 21976 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات